شہری بھتہ خوروں کے رحم و کرم پر

پشاور کے ایک سینئر سکیورٹی عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ دہشت گرد لوگوں سے بھتے کے ذریعے لی جانے والی رقوم سے ملک میں اپنی کارروائیاں کررہے ہیں۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے میڈیا کو بتایا کہ پولیس میں درج ہونے والی بھتے کی شکایات کے مطابق یہ رقم مجموعی طور پر ایک ارب6کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے۔عہدیدار نے کہا کہ اصل رقم، رپورٹ ہونے والی رقم سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے لوگ دہشت گردوں کے حملوں کے خوف سے پولیس میں شکایت درج نہیں کراتے اور بھتہ دے دیتے ہیں۔ابھی حال ہی میں یہ انکشاف سامنے آیا تھا کہ خیبر پختونخوا کے تاجروں کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات، گھروں میں موجود جیولری اور نقدی، گاڑیوں کی تعداد، اسلحہ اور اہل و عیال کی تمام مالی تفصیلات دہشت گروں کے ہتھے چڑھ گئی ہیں جس پر تاجروںکی جانب سے سرکاری ا داروں کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ بھتہ خوروں کی جانب سے کال آتی ہے اور کہتے ہیں کہ آپ کے اس بینک میں یہ اکائونٹ ہے۔ آپ کی بیوی کا دوسرے بینک میں اکائونٹ ہے۔ آپ کے بچے کا اکائونٹ بھی ہے اور ان اکائونٹس میں اتنی رقم موجود ہے۔ جس جس جگہ پلاٹ ہے جہاں جہاں گھر ہے اور کون کون سی گاڑی ہے تمام تفصیلات ان کے پاس ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق یہ واقعات رپورٹ نہیں ہورہے اور حتی کے کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ کے پاس بھی یہ معلومات مکمل نہیں ہوںگی کہ کتنے تاجروں کو بھتے کیلئے کالز آئی ہیں ۔خیبر پختونخوا کے تاجر اورصاحب ثروت حضرات ایک عرصے سے اس صورتحال سے دو چار ہیںجس کے باعث لوگوں نے نقل مکانی تک کیاور کاروبارمنتقل کئے یہ سلسلہ تھم گیا تھامگراب حالات کی خرابی کے ساتھ یہ منظم عمل دوبارہ شروع ہو گیا ہے حیرت کی بات لوگوں کے انتہائی رازداری کے معاملات کا افشاء اور اس سے بھتہ خوروں کی آگاہی ہے یہ ایک حساس معاملہ کہ لوگوںکی ذاتی معلومات یہاں تک کہ بینک اکائونٹس تک محفوظ نہیں اس قسم کی صورتحال میں شہریوں کے پاس فریاد کرنے کوکوئی ادارہ بھی باقی نہیں رہتا۔خیبر پختونخوا کے سینئر سکیورٹی آفیسر کا انکشاف چشم کشا ہے ان کے بیان اور تاجروں کی فریاد دونوں ہی بے بسی کا وہ مظہر ہیں جس کے حوالے سے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں سوائے اس کہ اگر اب بھی اس حوالے سے مسکت اقدامات نہ کئے گئے توپشاور پر حکومت کی بجائے بھتہ خوروں کی عملدراری قائم ہوجائے گی اور عوام خدانخواستہ ان کے رحم و کرم پر ہوں گے ۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی