احتساب کے عمل پر سوالیہ نشان

مستعفی ہونے والے چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے کہا ہے کہ کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا۔ بہت خوش اور مطمئن ہوں کہ اپنے اصولوں پرکاربند ہوں اور کسی دبائو کے سامنے نہیں جھکا۔ میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا، نہ ہی کسی کے خلاف قائم ریفرنس محض اس بنیاد پر بند کرسکتا ہوں کہ مجرم کسی بااثر شخص کا رشتہ دارہے۔ نیب کے پرکاٹنے کی کوششیں اورایکٹ میں ترمیم کے بعد اس سے فوائد اور رعایت سمیٹنے کے مظاہر تو سب کے سامنے ہیں یہ درست ہے کہ ماضی میں بھی نیب کے اختیارات کا غلط اور سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیاگیا لیکن ایسالگتا ہے کہ ابھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا اور چیئرمین نیب کے استعفے سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ نیب کوکن مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کی سعی ہو رہی ہے چیئرمین نیب کا استعفیٰ ملک میں احتساب کے نظام بارے سوالات کا باعث بننا فطری امر ہے ہمارا نظام احتساب پہلے ہی سے سوالات اور شکوک و شہبات کی زد میں رہا ہے مگر مستعفی چیئرمین کے بیان سے وہ ساری صورتحال طشت ازبام ہو گئی ہے اس استعفے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومتیں کس طرح احتساب کے ادارے پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں ایسا پہلی بار ہی ہوا کہ بجائے اس کے کہ فرمائشی احتساب یا پھر دوسرے لفظوں میں یکطرفہ احتساب کے چیئرمین نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہو اس صورتحال کو سمجھنا زیادہ مشکل اس لئے نہیں کہ ابھی تحریک انصاف کے بہت سے رہنمائوں بشمول عمران خان کو نیب طلبی کے نوٹس موصول ہونے لگے ہیںجبکہ بعض دیگر کے مقدمات کو سمیٹنے کا عمل جاری ہے ۔ احتساب کے ادارے کی اہمیت اور ریاستی نظام میں اس کے کلیدی کردار سے انکار نہیں لیکن اگر اس کردار کو یکطرفہ بنایا جاتا ہے تو اس کی حیثیت ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ادارے پر بھی تنقید ہوتی ہے اور منفی تاثرات کا باعث بنتا ہے جس کا ادارے کے کردار پر اثر انداز ہونا فطری امر ہے ایسے میں احتساب کے عمل پر انگشت نمائی کا بھی راستہ کھل جاتا ہے اس ساری صورتحال کے تناظر میں مستعفی چیئرمین کا بیان اور نشاندہی نظام احتساب پرمزید سوالات کا بھی باعث بنتا ہے اور اس منفی تاثر کو بھی راسخ کرنے کا باعث امر ہے جو ادارے کے حوالے سے زبان زد خاص و عام چلا آرہا ہے ۔ ملک کے معاشی حالات کے تناظر میں خاص طور پر احتساب کے ادارے کی غیر جانبداری اور تسلسل سے کام جاری رکھنا عین ضرورت کے زمرے میں آتا ہے اس ادارے کا سیاسی استعمال نے احتساب کے نظام اور ادارے کی ساکھ کو تباہ کیا ہے بلکہ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے باعث سیاسی ہم آہنگی بھی بری طرح متاثر ہوتی رہی ہے اب آثار ایسے نظر آرہے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر اس کی تاریخ دہرائی جائے گی۔ احتساب کے عمل میں مداخلت اور اس کے سیاسی بنیادوں پر ہونے سے احتساب کا عمل کم ہی مکمل ہوتا ہے طویل مراحل کی تکمیل کے دوران ہی سیاسی حالات کی تبدیلی کے باعث ملزمان کے خلاف کارروائی کا عمل نامکمل رہ کر سرد خانے میں چلا جاتا ہے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس میں پاکستان کی مسلسل گراوٹ اس امر پردال ہے کہ احتساب اور شفافیت کے تمام تر دعوئوں کے باوجو د ملک میں بدقسمتی سے بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے جو ملک میں احتساب کے کھوکھلے عمل اور حقیقی مقاصد سے دوری کا واضح ثبوت ہے ۔ مستعفی چیئرمین نیب کے استعفے کے تناظر میں اس صورتحال اور وجوہات کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیںاحتساب کے عمل میں شفافیت اور مکمل غیر جانبداری بنیادی اصول ہے اس ساری صورتحال پر پارلیمان کوغور کرنا چاہئے مگر مشکل یہ ہے کہ اولاً فی ا لوقت پارلیمان بھی نامکمل ہے اور اگر مکمل ہو بھی تو یکے بعد دیگرے وہیں بیٹھے ہوئے افراد احتساب کے عمل کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتے ہیں لہٰذا خیر کی کوئی توقع نہیں ۔ جب تک ملک میں شفاف احتساب کا عمل شروع نہیں ہوتا اور نیب کے ادارے کو غیر جانبدار نہیں بنایا جاتا ملک میں بدعنوانی کا راستہ روکنا ممکن نہ ہو گا۔مگر مشکل یہ ہے کہ جب ساری بلیاں ہی پارلیمان میں بیٹھی ہیں تو بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے اور ملک میں شفاف احتساب کی امید کس سے اور کیسے رکھی جائے ۔

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی