ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت

ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں جہاں دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت ہوئی وہاں وزیر اعظم نے اسی موقع پر بجا طور پر معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام کو بھی ناگزیر قرار دیا انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی کیلئے سبھی کو اپنی توانائیاں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے، وزیر اعظم کے خیالات حقائق پر مبنی ہیں اس میں شبے کی گنجائش نہیں کہ وطن عزیز کے موجودہ بحران کا حل قومی یکجہتی و ہم آہنگی میں ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہو گا جب ملک میں سیاسی اختلافات ذاتی اور خاندانی دشمن کی حد تک آ گئے ہیں،مستزاد سیاسی جماعتوں میں تصادم اور سیاسی طاقتوں میں بعد کی صورتحال سے کسی طور یہ امید نہیں بندھتی کہ ہمارے غمخوار اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے باہم مل بیٹھنے پر کبھی آمادہ بھی ہو سکتے ہیں سیاسی عناصر کی اس روش کے طویل المدت منفی اثرات ہو سکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں اختلافات کم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی، کوئی فریق لچک دکھانے کو تیار نہیں ہٹ دھرمی کا ماحول ہر طرف ہے جو سال بھر سے شدت اختیار کر گیا ہے اسے المیہ ہی قرار دیا جائے گا کہ حالیہ ماہ و سال ملکی سیاست کے بد ترین سال ہیں جب سیاستدان ایک دوسرے کے درپے ہوں تو پھر معیشت کی جانب بے توجہی فطری امر ہو گی جس کے نتائج اب شدید سے شدید تر معاشی صورتحال کی صورت میں سامنے ہیں حکومت آئی ایم ایف کی سخت ترین اور مشکل شرائط قبول کرنے کی قیمت پر قرض بحالی معاہدے کی سعی میں ہے چین سے صرف ستر کروڑ ڈالر موصول ہونے اور زرمبادلہ کے ذخائر صرف چار ارب ڈالر ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے آئی ایم ایف سے سٹاف سطح کے معاہدے اور پروگرام کے ٹریک پر آنے پر مزید فنانسنگ کی توقع میں چلائی جانے والی معیشت سے کس طرح استحکام آئے گا یہ سب پریشان کن صورتحال ہے،یہ وہی راستہ ہے جس پر چل کر ہم آج معاشی بدحالی کے مقام پر کھڑے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہے ماضی میں بعض حکومتوں نے جو بیج بویا ہے اس کی فصل آج ہم کاٹ رہے ہیں اس صورتحال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے مگر سبق سیکھنے کیلئے جس کھلے ذہن اور ملکی مفاد کا خیال ہونا چاہئے وہ کہیں نظر نہیں آتا، اگر سیاسی دنیا میں مفاہمانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے ہر حال میں اہداف و مقاصد کے حصول کی ضد برقرار رہی تو پھر اس ملک کا خدا ہی حافظ ہے، وزیر اعظم کی جانب سے جن اچھے خیالات کا بار بار اظہار کیا جاتا ہے، حالات کا تقاضا ہے کہ ان کو عملی جامہ پہنانے کی سنجیدہ سعی کی جائے، ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو ذمہ دارانہ اور محتاط کردار اختیار کرنے کی ضرورت ہے،بصورت دیگر قانون کی حکمرانی جو کسی ریاست کو چلانے کیلئے درکار ہوتی ہے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکے گا، سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ محولہ معاملات میں جامع اتفاق رائے قائم کریں اور قومی مفاد کے اصولوں کے تقاضوں کو سمجھیں صرف یہی صورت ہی ملکی مسائل کے حل کی راہ متعین کر سکتی ہے جس پر غور کرنے اور اپنے اپنے طرز عمل کی اصلاح کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟