معاشی مشکلات، اسباب اور سدیاب

قیام پاکستان کے بعد پچھتر برسوں میں سے چار سال چھوڑ کر باقی جتنی مدت گزری ہے ، وہ بہت عجیب طرح گزری ہے ۔ ہم نے یعنی ہمارے حکمرانوں نے گزشتہ ستر برسوں میں دنیا کا کوئی ایسا مالیاتی ادارہ اور ملک نہیں چھوڑا جس سے قرض لینے کے لئے کشکول آگے نہ کیا ہو ۔ اس وقت پاکستان پر بیرونی قرضوں کاحجم خیر سے97 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہی ہے ۔ آئی ایم ایف ، پیرس کلب ، ورلڈ بنک، ایشیائی ترقیاتی بنک’اسلامک ڈویلپمنٹ بنک سے دل کھول کر قرض لیکر عیاشیاں ہوتی رہی ہیں ۔ اس مجموعی قرضہ میں تقریباً تیس فیصد اپنے دیرینہ دوست چین سے لیا گیا ہے ۔ جس کی امریکہ وغیرہ کو کافی تشویش ہے۔ اب اس وقت پاکستان کی جو معاشی بدحالی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے جو قرض لئے ہیں۔ ان کا زیادہ تر حصہ غیر ترقیاتی کاموں ، عیاشیوں ، خشما شیوں اور کچھ اپنی تجوریوں میں منی لانڈرنگ کی نذر ہو گیا ۔ ہم نے ان قرضوں کی رقم سے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو پیداوار کا سبب بن کر قرض اتارنے میں مدد گار ثابت ہوتا ۔1999 سے تا حال ہمارے حکمرانوں نے قرض خواہوں کو جُل دینے کا اپنے ہاں کا ایک دیسی طریقہ آزمایا ہے جس میں کسی ایک ملک کے قرضے کی واجب الادا قسط ادا کر نے لئے کسی دوسرے ملک سے قرض لیا ۔ یوں سود در سود بلکہ مرکب بہتی چلی گئی اور پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی پر بوجھ بڑھتا چلاگیا۔
اس وقت آئی ایم ایف معاہدہ ہونے کی نوید پر قوم کو سنائی جا چکی ہے لیکن لگتا نہیںکہ یہ قرضہ ہمیں آسانی سے مل سکے گا۔ کیونکہ آئی ایم ایف کے ریونیو بڑھا کے لئے جو شرائط ہیں،ان کی تکمیل پاکستانی قوم کے لئے ” مرے کو مارے شاہ مدار” کے مصداق ثابت ہونے والاہے۔ یکم مارچ کو پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم از کم10روپے بڑھنے کی نوید ہے جس کے نتیجے میں اشیائے صرف کی نعمتیں عوام کی پہنچ مزید دور ہو جائینگی اور ایسے حالات پیداہونے کے خدشات ہیں کہ کہیں پورے ملک میں مہنگائی ، معاشی اور سیاسی افراتفری کے سبب عوام بے قابو ہو کر سڑکوں ‘دفاتر اور کارخانوں و دکانوں سے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سری لنکا کے لوگوں کی طرح ابل نہ پڑیں۔
جمہوری ملکوں میں سیاسی رہنمائوں کے اپنے عوام پر بڑے مضبوط اثرات ہوتے ہیں ۔جس کی وجہ سے انارکی و انتشار پھیلنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت وطن عزیز کی تین چار بڑی سیاسی جماعتوں کے اکابرین ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور عوام کے مقبول ترین لیڈر عمران خان کے درمیان تعلقات دشمنی کی حدوں کوچھو رہے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ اس وقت دنیا کی انوکھی بلکہ مضحکہ خیز ایوانوں سے حزب اختلاف موجود ہی نہیں تحریک انصاف جیل بھرو کی تحریک میں مشغول ہے اور حزب ا قتدار اپنی نگران حکومتوں کے وزراء ا علیٰ اور گورنروں کے ذریعے سیاسی انتقام کا سلسلہ چلانے کے علاوہ آئین پاکستان کے مطابق نوے دن کے اندرانتخابات سے گریزاں ہیں۔ معاملہ اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ صدر پاکستان اور دو بڑے صوبوں کے گورنر اور وزراء اعلیٰ جمع الیکشن کمیشن دو بدو مقابلہ کرنے کے لئے آمنے سامنے ہیں۔ کسی بھی ملک میں حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں ‘ لیکن اگر اس کی عدلیہ ملک قوم کو بروقت بے لاگ انصاف فراہم کرنے کے لئے ہمہ وقت موجود ہو تو بہت برے حالات کے باوجود ملک و قوم سنبھل جاتی ہے جیسے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اور جرمنی و جاپان سنبھل گئے تھے اور آج ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہیں۔ لیکن بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلوں کے اثر و رسوخ سے داغدار ہونے سے کسی دور میں بھی بچ نہیں سکی ہے ۔
اس وقت ایک طرفہ تماشا جاری ہے کہ عدلیہ نے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کرانے پر سوموٹو ایکشن لیا تو ہماری ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما اس پر بغیر کسی لگی لپٹی کے تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور معیشت مزید دبائو میں آرہی ہے ۔۔ کہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کوئی ان حالات میں کیونکر تیار ہو۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ دنوں یہ کہہ کر ”آئین پاکستان نے ہمارے دروازے پر دستک دی ہے” ہم ضرور انصاف فراہم کریں گے ‘ ایک بہت بڑی بات کی۔ لیکن اس کے دوسرے دن ایک لیگی سینیٹر نے کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”آئین بیس سال تک دستک دیتا رہا” کسی نے آئین کی نہیں سنی بلکہ آئین کو دھکے دے کر عدل گاہوں سے نکالا گیا اور آئین شکن ہاتھوں کو بو سے دے کر بیعت کی گئی۔ آج یہ دستک اتنی متبرک کیسے ہو گئی؟ سینیٹر کی بات میں وزن تو ہے لیکن اگر ماضی میں دستک نہ سنی گئی تو کیا آج بھی نہ سنی جائے ۔ ہمارا ایک بہت بڑا قومی المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی گزشتہ راصلوات کہتے ہوئے اصلاح کی کوشش کرے تو اس کی راہ میں ماضی کے قصوں و واقعات کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
یہ بات اب پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ عمران خان کی حکومت کا بے وقت گرانا کسی طور پر بھی پاکستان اور عوام کے لئے بہتر ثابت نہ ہو سکا۔ جنرل باجوہ نے جوکیا ‘ ایک دنیا اسے غلط کہہ رہی ہے ۔ لہٰذا اب عمران خان اور موجودہ ”امپورٹڈ حکومت” کے درمیان ایک میز پر بیٹھ کر ملک و قوم کے سب سے بڑے مسئلے(معاشی بدحالی) کا حل نکالنے کے لئے منصوبہ بندی کرنا وقت کی شدید اور اولین ضرورت ہے ۔ اگر تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے وقت کے نبض پر ہاتھ رکھ کر موجودہ بحران سے نکلنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کیں تو مورخ سب کو قصووار لکھے گا۔خدانخواستہ پاکستان کی معاشی بدحالی یونہی جاری رہی تو ملکی سا لمیت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پاکستان سب سے پہلے اور پاکستان ہرچیز پر مرجح (سپیریئر) کے اصول کے تحت گزشتہ دس مہینوں کی ساری تلخیوں اور الجھنوں کو ملک کی خاطر بالائے طاق رکھتے ہوئے چین’سعودی عرب ‘ امارات ‘ قطر اور ایران سے ملک کو قرضوں سے نکالنے کے لئے اخوت اور دوستی کے ا صولوں کے مطابق آخری بار امداد کے لئے متحد ہو کر درخواست کرنی چاہئے ‘ اور آئندہ کے لئے سب مل کر آئین پاکستان اور عدل و انصاف کے مطابق ملک کے معاملات چلانے کے انتظامات پر حلف و برادری ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تجاوزات اور عدالتی احکامات پرعملدرآمد کا سوال