کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

قتیل شفائی نے ایک عرصہ پاکستان فلم انڈسٹری میں گزارا اور اس دوران سینکڑوں گیت لکھے ‘ فلمی گیتوں کا تعلق چونکہ موسیقی سے ہوتا ہے اور موسیقی کے حوالے سے ایک اور شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ سات سروں کا بہتا دریا ‘ تیرے نام نام ‘ یہ سات سر”سارے گا ما پا دھانی سا” سے تان پلٹوں کی صورت میں راگوں میں ڈھل کر گیتوں کو جنم دیتے ہیں ‘ اس لئے قتیل شفائی نے اس عمل کواپنے ایک خوبصورت شعر میں یوں واضح کیا ہے کہ
کبھی سارے ‘ کبھی گاما ‘ کبھی پادھا ‘ کبھی نی سا
مسالہ جان کر اس نے سدا ہر گیت کو پیسا
اب چوہدری فواد حسین نے اپنی ہی جماعت کے ایک اور چوہدری یعنی پرویز الٰہی کوسیاست کی ہانڈی کے مسالے سے تشبیہہ دی ہے ‘ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ جب سے عمران خان نے چوہدری پرویز الٰہی کواپنی جماعت کا صدر بنایا ہے ‘ پارٹی کے ان رہنمائوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہا ہے جو عمران خان کی”ممکنہ”نا اہلی کے بعد خود کوپارٹی سربراہ کے طور پردیکھ رہے ہیں ان میں دو تو علانیہ اس کااظہار کرتے رہتے ہیں یعنی اشاروں کنائیوں میں سہی ‘ اور وہ ہیں شاہ محمود قریشی اور فواد چوہدری جبکہ دو ذرا دبی زبان میں خود کو سربراہ کے طور پر پیش کر رہے ہیں ‘ یعنی اسد عمر اور پرویز خٹک ‘ بہرحال چوہدری پرویز الٰہی کو اپنی پارٹی کی ہانڈی میں مسالہ قرار دیتے ہوئے ایک نجی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ پرویز الٰہی کوئی عوامی سیاستدان نہیں وہ پاور پالیٹکس کے لوگ ہیں ‘ پرویز الٰہی نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب اسمبلی تحلیل ہو ‘ ہر پارٹی میں ایک ہانڈی ہوتی ہے اور جس طرح ہر ہانڈی کے لئے سارے مسالے چاہئیں ہوتے ہیں ‘ اسی طرح پرویز الٰہی بھی پی ٹی آئی ہانڈی کا اہم مسالہ ہے اس سارے بیانئے کو اگر مشہور مزاح نگار مرحوم مشتاق احمد یوسفی کے الفاظ کے آئینے میں دیکھا جائے تو صورتحال کچھ اور بنتی ہے ‘ یوسفی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ”اپنی تعریف اور تعارف کرانا کار ثواب ہے کہ اس طرح دوسرے جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں ” ۔ اب دوچودھریوں کے درمیان”مرغی حرام” والی بات تو نہیں کی جا سکتی ‘ البتہ جس طرح چودھری فواد حسین نے اپنے”ممکنہ” سربراہ پارٹی کے لتے لیے ہیں ‘ اسے بقول یوسفی تعریف اور تعارف کے برعکس ” غیبت” بھی تو قرار دیا جا سکتا ہے ‘ اس سے بہتر ہوتا کہ چودھری پرویز الٰہی کو قتیل شفائی کے الفاظ میں”مسالہ” جان کر دیگ میں رگڑے لگانے سے تو اچھا تھا کہ خود اپنا تعارف اور تعریف کرلیتے توغیبت سے بھی
بچ جاتے، اور آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے کے احمد فراز کے کلیے پر بھی کسی نہ کسی حد تک پورا اترتے ، یہ الگ بات ہے کہ بہار کی ہوا اتنی ”کشف ”نہیں ہوتی یعنی فواد چودھری کے جُتے کی طرح بلکہ وہ تو کسی نازک اندام گلبدن’ رشک چمن ، سیمیں بدن کی طرح ہوتی ہے۔ خیر جانے دیں ہمیں کیا ‘ کہ ایک چودھری دوسرے کو دیگی مسالہ سمجھ کر پارٹی کی ہانڈی میں ڈوئی سے اوپر نیچے، دائیں بائیں گھما کر خوب خوب پیس رہا ہے’ اب دیکھتے ہیں کہ ”مسالہ چودھری”اس کا کیا جواب دیتا ہے’ تادم تحریر تو یہ جواب سامنے نہیں آسکاحالانکہ موصوف کا یہ بیان اتوار کے روز سامنے آچکا تھا اور اگلے روز پرنٹ میڈیا پراس کے خوب چرچے رہے اور سوشل میڈیا پر تو یار لوگوں نے اس کی میمز بنا کرخوب خوب انجوائے کیا ۔ مگر سیاسی ہانڈی کے مبینہ مسالے یعنی پرویز الٰہی چودھری نے بے زبانی میں پناہ لینے میں عافیت سمجھی۔ یہ کہتے ہوئے کہ خموشی گفتگو ہے بے زبانی بے زبان میری، اگرچہ یار طرحدار خالد خواجہ کا بھی ایک تازہ شعر ہے کہ
ہمارے شہر میں رہنے کی شرط خالد جی
زبان رکھتے ہوئے ہے زبان ہونا ہے
گزشتہ کچھ کالموں میں ہم اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ بعض خبریں ہمیں ماضی میں جھانکنے پر مجبور کر دیتی ہیں ایسی ہی ایک خبر نے ایک بار پھر ہمیں ماضی میں دھکیل دیا ہے۔ اور خبر ترکی کے شہر استنبول کی ڈیٹ لائن سے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ایڈونچر کے شوقین افراد(سیاحوں) کیلئے” پہلی بار”دنیا کا طویل ترین سیاحتی سفر ہونے جا رہا ہے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق بھارتی سیاحتی کمپنی ”ایڈونچرز اوور لینڈ”اس پروگرام کا جلد اعلان کرنے والی ہے جہاں مسافر دنیا کا طویل ترین سفربس کے ذریعے کریں گے’ اس سفر کا آغاز اگست کے مہینے سے ہوگا اور30خوش قسمت مسافر22 ممالک کا سفر کریں گے یہ سفر ترکیہ سے شروع ہو کر بلقان ، مشرقی یورپ ، شمالی اور مغربی پورپی ممالک سے گزرتے ہوئے برطانیہ کے دارالحکومت پر اختتام پذیر ہوگا ۔ یہ سفر56 دن اور12ہزار کلو میٹر پر محیط ہے، اس سفر کا حصہ بننے کیلئے24 ہزار 300 ڈالرز یعنی پاکستانی68 لاکھ80 ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے ۔ اس پیکیج میں30 ناشتے اور ڈنر سمیت ہوٹلوں میں قیام سے شامل ہے ۔ اوپر کی سطور میں خبر کے حوالے سے لفظ پہلی بار کو ہم نے واوین میں اس لئے قید کیا ہے کہ اس لفظ سے ہمیں اختلاف ہے اور اس کیوجہ یہ ہے کہ ایک دور تھا جب اسی طرح لندن سے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی اپنی لگژری بسوں کے قافلے لے کرمختلف ممالک کا سفر طے کرتے ہوئے ترکی ‘ ایران ‘ افغانستان ‘ پاکستان اور آگے جا کر بھارت کا سفرکرتے ہوئے اسی قسم کے طویل فاصلے طے کرتی سیاحوں کو لاتی لے جاتی رہی یہ ساٹھ کی دہائی کا ذکر ہے ‘ اس دور میں ہم پشاور کے ایک(مرحوم) تھری سٹار ہوٹل میں ریسپشنسٹ Receptionist) کے طور پر کام کرتے تھے(اس دور میں کانٹی نینٹل ہوٹلوں کا کوئی وجود نہیں تھا ‘ البتہ پشاور ‘ راولپنڈی ‘ مری اور لاہور میں ایک کمپنی اوبرائیز ہوٹلزکاایک چین ہوا کرتاتھا ) اسی دور میں ریڈیو پاکستان کراچی سے گلوکار احمد رشدی کی آواز میں کراچی کی سیاحت کے حوالے سے ایک گیت مقبول عام کی سند لے چکا تھا کہ
بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
سیاح دور دور سے پاکستان بھر میں آتے اور اپنے سفر کو خوشگواربناتے رہتے جو خصوصی طور پر کابل ‘ پشاور اور دیگر شہروں میں”چرس” پینے کے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا کرتے تھے ۔ یہ بھارتی گانا بھی اسی دورکا تحفہ تھا کہ
دم مارو دم
مٹ جائے غم
سودیکھتے ہیں کہ اس”طویل” سیاحتی بس کے مسافر اپنے سفر کے دوران کہاں کہاں کس ”چیز” کوانجوائے کرتے ہیں؟ بقول منیر نیازی
تھکے لوگوںکو مجبوری میں چلتا دیکھ لیتا ہوں
میں بس کی کھڑکیوں سے یہ تماشے دیکھ لیتا ہوں

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی