سیاسی مداخلت اور آئینی مباحث

ہمار ے مُلک کی سیاست اب اس قدر عدم استحکام کا شکار ہو چکی ہے کہ یکے بعد دیگرے قومی اداروں پر بھی ضربیں لگائی جا رہی ہیں ۔ کھلے عام تنقید کی جارہی ہے ۔ سیاسی نظام مفلوج ہو چکا ہے ۔ اہل سیاست ایک دوسرے کو بّرا بھلا کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے بلکہ ان کے تیورہر ر وز کچھ زیادہ ہی بگڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ جب ہر طرف بحران ہی بحران دکھائی دے تو یہی تشویش لاحق ہوتی ہے کہ ایسے میں کیا ہوگا ۔ اہل فکر یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت جمہوریت کو بدنام کرنے اور پارلیمنٹ کی اہمیت کو کم کرنے کا انجام ہے اور قوم کو آئینی کردار سے انحراف کی سزا مل رہی ہے ۔ اب بھی ان تمام مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور ادارے اپنی ساکھ بحال کر سکتے ہیں اگر آئین کی عملداری کو یقینی بنایا جائے کیونکہ آئین ہی اس مُلک کی بقا کا ضامن ہے ۔ چند دن قبل عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ میں دیری سے متعلق از خود نوٹس لیا۔ اس حوالے سے دو فاضل جج صاحبان نے اپنے اختلافی فیصلے میں یہ قرار دیا کہ سپریم کورٹ نے جلد بازی سے کام لیا ہے کیونکہ یہ معاملہ پہلے ہی لاہور اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے ۔ یوں صوبائی معاملہ میں مداخلت اور ہائی کورٹ کی خود مختاری کو مجروح نہیں کرنا چاہیے ۔ ان دو جج صاحبان نے یہ بھی لکھا کہ چیف جسٹس کے’ ‘ون مین پاور شو” کے اختیار پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔اس اختلافی فیصلہ سے ایک نئی آئینی بحث شروع ہو گئی کہ اس سے صرف عدالتی ہی نہیں بلکہ پورے سیاسی نظام پر کیا اثرات پڑیں گے اور سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ بھی متاثر ہو سکتا ہے ۔ کچھ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے سپریم کورٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ۔
عوام اپنی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور جج صاحبان کی عزت کو افضل سمجھتے ہیں ۔ جب اُنہیں یہ شبہ ہونے لگے کہ ججوں کی تقرری سیاسی اور جماعتی مفادات کے پیش نظر ہوئی یا کسی جج کی ہمدردی کسی سیاسی جماعت اور شخصیت کے ساتھ ہے تو پھرعدلیہ کی آزادی پر حرف آنے لگتا ہے ۔ عدلیہ کی مکمل آزادی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوا کرتی ہے لیکن جب ججوں کے عہدے تقسیم ہونے لگیں تو یہ خوف لازمی پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے ۔ مُلک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کے باعث عوام مایوس ہو کر پہلے ہی عدالتوں کی طرف دیکھ رہی تھی ، اب اگر اعلیٰ عدالتوں کے اندر ہی تنازعات پیدا ہونے لگیں تو تفکرات میں اضافہ ہی ہوگا ۔ ہماری سیاسی تاریخ کا یہ ایک المناک باب ہے کہ عدلیہ کی جانبداری نے پارلیمانی جمہوریت کا تماشا بنائے رکھا ، غیر جمہوری عناصر کو آسانیاں میسر آئیں اور انتخابی عمل عوامی رائے کی بجائے ہمیشہ کسی طاقت کی مرضی کے تابع رہا ۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایسے کئی عدالتی فیصلے ہماری جمہوریت کے لیے ہمیشہ سوہان روح ثابت ہوئے اور یہی تاثر دیا گیا کہ ہمارا دستور ناکام ہو چکا ہے ۔ اسی باعث بہت سے حلقے ایک نئے نظام اور نئے سماجی دستور کی بات کرتے چلے آرہے ہیں کہ جس میں فوج ، عدلیہ اور مخصوص طبقوں کے سیاسی کردار کا تعین کیا جا سکے ۔اس حوالے سے وہ دنیا کے چند ممالک کی مثالیں بھی دیتے ہیں ۔ یہ باتیں اور مفروضے ہرگز درست نہیں ، ہمارے مُلک کا آئین پارلیمانی نظام کا تحفظ کرتا ہے اور اس میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ کوئی اس کی من مانی تشریح کرنے بیٹھ جائے ۔ پارلیمنٹ عوام کی مرضی کے سوا کسی ادارے کے زیر اثر نہیں ہوتی ، یہ عوام ہے جو اپنے نمائندوں کو براہ راست اور بلا خوف و خطر منتخب کرتے ہیں اور اُنہیں یہ اختیار دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں شریک ہو کر مُلکی معاملات کو قومی سلامتی اور عوام کی خوشحالی کے حصول کی خاطر چلائیں ۔ سیاسی بصیرت رکھنے والے عوامی نمائندوں نے مُلک میں پارلیمانی جمہوری نظام اور وفاقی اکائیوں کو مضبوط رکھنے کے لیے آئین بنایا ۔ اس آئین کو بنے ہوئے اب پچاس سال ہو گئے ہیں ۔ یوں تو اس دستور کو ختم کرنے کے لیے کئی غیر قانونی اور غیر آئینی ا قدامات اٹھائے گئے ، کٹھ پتلیوں اور گماشتوں کو ہیرو بنا کر اسمبلی میں بٹھایا گیا تاکہ اپنی مرضی کے مطابق اس آئین کا حلیہ بگاڑا جا سکے مگر اس آئین میں اپنی بقا کی صلاحیت موجود ہے ۔ اہل سیاست کے ہاتھوں اسمبلیاں توڑی گئیں ، اقتدارنہ رہنے کی صورت میں اسمبلی سے استعفے دئیے گئے اور اب بھی یہ کوششیں جاری ہیں کہ پارلیمنٹ کے فیصلے عدالتوں میں ہوں ۔ اس حوالے سے سیاسی پارٹیوں کے حمایتی اور ملازم قانونی ماہرین اپنی اپنی تاویلات پیش کر رہے ہیں لیکن کسی بلا جواز مداخلت کی بجائے ایک جمہوری مُلک میں عوام کی منتخب پارلیمنٹ کا منظور شدہ آئین ہی بالا دست ہوا کرتا ہے ۔ اسی لیے تو سپریم کورٹ کے دو فاضل ججوں نے اپنے فیصلے میں فرد واحد کی مرضی و منشا سے کہیں زیادہ فل کورٹ کی اہمیت سے مکمل اتفاق کیا ہے ۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ ہمارے سیاسی نمائندوں کو دیر سے سہی یا اپنے اقتدار کی مجبوری سے یہ خیال آیا کہ پارلیمنٹ کے فیصلے اُنہیں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کرنے ہوں گے ۔ ہر آئینی اور سیاسی بحران کو حل کرنے کے لیے سیاسی حکمت ہی کارگر ہوا کرتی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ سیاسی حکمت کا ادارہ صرف پارلیمنٹ ہے ۔ اب تو عدالت عظمیٰ کے ججوں نے بھی چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کے بارے اپنے تحفظات نمایاں کر دئیے ہیں ، اس لیے آئین کی روشنی میں ایسا فیصلہ دیا جائے بلکہ مستقبل میں بھی ایسے فیصلے ہوں کہ جس سے عدالت عظمیٰ کی ساکھ برقرار رہے ۔ تمام سیاسی جماعتوں پر یہ لازم ہے کہ مل بیٹھ کر ان تمام مسائل اور معاملات کا آئینی و مفاہمتی راستہ تلاش کریں اور کسی کو بھی مُلکی سیاست میں مداخلت کرنے کا مو قع نہ دیں ۔
عوام اپنی عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور جج صاحبان کی عزت کو افضل سمجھتے ہیں ۔ جب اُنہیں یہ شبہ ہونے لگے کہ ججوں کی تقرری سیاسی اور جماعتی مفادات کے پیش نظر ہوئی یا کسی جج کی ہمدردی کسی سیاسی جماعت اور شخصیت کے ساتھ ہے تو پھرعدلیہ کی آزادی پر حرف آنے لگتا ہے ۔ عدلیہ کی مکمل آزادی عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہوا کرتی ہے لیکن جب ججوں کے عہدے تقسیم ہونے لگیں تو یہ خوف لازمی پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو ان کے حقوق سے محروم کیا جارہا ہے

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں سے ہوشیار