الیکشن التوا کیس مکالمہ اور تلخی

پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے خلاف دائر تحریک انصاف کی درخواست پر سوموار کو سپریم کورٹ میں سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل کی جانب سے دائر متفرق درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ الیکشن التوا کیس کی سماعت نہ کرے۔ اٹارنی جنرل کی درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی کہ ازخود نوٹس کیس نہ سننے والے ججز پر مشتمل عدالتی بنچ بنایا جائے۔ الیکشن التوا کیس کی سماعت کے ابتدائی مرحلہ میں چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ انہوں نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد نہیں کی بلکہ یہ کہا تھا کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھ لیں گے۔ قبل ازیں اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی توجہ ان خبروں کی طرف دلائی تھی جن میں کہا گیا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اٹارنی جنرل کی اب استدعا فل کورٹ کی بجائے لارجرز بنچ کی ہونی چاہیے۔ تین رکنی بنچ میں طلبی پر پیش ہونے والے وفاقی سیکرٹری دفاع نے عدالت کو بتایاکہ سکیورٹی معاملات پر حساس معلومات عدالت کی بجائے چیمبر بریفنگ کے لئے تیار ہیں۔ وفاقی سیکرٹری خزانہ کی جگہ پیش ہونے والے ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ سے چیف جسٹس نے سوال کیا کہ تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت ارکان قومی اسمبلی کو 170ارب روپے کے فنڈز دے رہی ہے یہ درست ہے تو 20ارب کا بندوبست کیوں نہیں ہو سکتا۔ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے وکلا سے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جماعتیں عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کرچکی ہیں پہلے اپنی جماعتوں سے مشورہ کرلیں۔ مختلف قانونی سوالات پر بھی چیف جسٹس اور بنچ کے دریگر ارکان کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ ہوااور الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر سے تلخ کلامی بھی ۔ سماعت کے دوران 31مارچ کے حکم نامے کا بھی ذکر ہوا جس میں فل کورٹ کی استدعا مسترد ہونے، عرفان قادر، اکرم شیخ اور فاروق نائیک کا تذکر شامل نہ ہونے پر مختصرا بات ہوئی۔ ایک مرحلہ پر عدالت نے کہا کہ مسلح افواج میں نیوی اور فضائیہ بھی شامل ہیں، بری فوج کے سابق افراد کو بھی سکیورٹی کے لئے بلایا جاسکتا ہے۔ وزارت داخلہ پیرا ملٹری فورسز سے بھی کام لے سکتی ہے۔ دو صوبوں کی اسمبلیوں کے انتخابات کے التوا کے خلاف دائر کیس کی سماعت کے دوران اٹھائے جانے والے اہم سوالات کو نظرانداز کرکے آگے بڑھنے کی حکمت عملی چیف جسٹس اور بنچ کا اختیار ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ جن بنیادی نوعیت کے سوالات کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ آنے والے دنوں میں تنازعات کی راہ ہموار کریں گے۔ حکمران اتحاد کے گزشتہ روز منعقد ہونے والے مشاورتی اجلاس میں تین رکنی بنچ پر عدم اعتماد اور سوموار کو اس حوالے سے دائر اٹارنی جنرل کی متفرق درخواست کو الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ خود تین رکنی بنچ بھی جس اہم نکتہ کو نظرانداز کررہا ہے وہ یہ ہے کہ ازخود نوٹس کی سفارش کرنے والے 2ججز جب ابتدائی 9رکنی بنچ سے اعتراضات کے باوجود الگ ہوگئے تھے تو جسٹس اعجازالحسن کو نئے بنچ میں شامل کیوں کیا گیا۔ یہ امر بھی بہت واضح ہے کہ الیکشن التوا کیس کی سماعت کرنے والا بنچ ازخود نوٹس لئے جانے اور اب فیصلے کی خلاف ورزی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران مخصوص انداز میں کارروائی آگے بڑھارہا ہے۔ چیف جسٹس اور بنچ کے دو ارکان ایک غیرمتعلقہ کیس میں دو صوبوں کے الیکشن کے معاملہ پر ازخود نوٹس کی سفارش کو تو درست سمجھ رہے ہیں لیکن ازخود نوٹس والے کیسوں کی سماعت روکنے کے حوالے سے قاضی فائز عیسی والے بنچ کے اکثریتی فیصلے کو غیرمتعلقہ قرار دے رہے ہیں۔ حساس نوعیت کے آئینی سوالات پر غور کے لئے چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ فل کورٹ کی بجائے لارجر بنچ کی استدعا بنتی ہے حیران کن ہے ۔ سوال یہ ہے کہ لارجر بنچ کی بجائے فل کورٹ کیوں نہیں؟ کیا ججوں کی تقسیم کے حوالے سے سامنے آنے والی ان خبروں کی تصدیق نہیں ہوجاتی کہ اگر فل کورٹ سماعت ہوتی ہے تو مخصوص فہم رکھنے والے عددی ااکثریت سے محروم ہوجائیں گے۔ اسی طرح یہ اعتراض قانونی طور پر درست ہے کہ جو دو جج اعتراضات کے باعث ازخود نوٹس کیسے والے 9رکنی بنچ سے الگ ہوئے ان میں ایک کا موجودہ بنچ میں ہونا درست نہیں کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے غیرمتعلقہ معاملے میں ازخود نوٹس لینے کی سفارش کی تھی۔ قانونی حلقوں کے ساتھ عوام الناس کے لئے بھی یہ امر باعث حیرت ہے کہ ایک بنچ کا غیرمتعلقہ معاملہ درست اور دوسرے کا غلط قرار دیا جارہا ہے۔ قاضی فائز عیسی بنچ کے فیصلے پر اعتراضات اور جاری کردہ سرکلر ابہام میں اضافے کا باعث بنے۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ ججز کی ذاتی پسندوناپسند نہیں بلکہ فیصلے بولتے ہیں یہ بدقسمتی ہی ہے کہ پچھلے ایک سال کے بعض فیصلوں کی وجہ سے پہلے تحریک انصاف کا موقف تھا کہ حق حکمرانی پارلیمان سے چھین کر سپریم کورٹ لے جایا گیا ہے اب موجودہ حکمران اتحاد کا کہنا ہے کہ مرضی کے بنچ مرضی کے فیصلے قابل قبول نہیں۔ یقینا یہ آرا بدقسمتی ہی قرار پائیں گی لیکن نوبت یہاں تک کیوں پہنچی اس پر فریقین نے نہیں عدالت کے جج صاحبان نے فیصلہ کرنا ہے کہ ایسا تاثر کیوں بنا کہ فلاں بنچ فلاں کے حق میں فیصلہ دے گا۔ اسی طرح عدالت کو چاہیے تھا کہ سوموار کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل سے پوچھتی کہ ان کی موکل جماعت کے رہنما کس بنیاد پر یہ دعوی کررہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایک اور وزیراعظم توہین عدالت میں گھر چلا جائے گا۔ گو چیف جسٹس نے بعض خبروں اور تجزیوں پر گزشتہ سماعت کی طرح سوموار کو بھی بعض باتیں کیں افسوس کہ ان سے بھی یہ تاثر ابھرا کہ یہ باتیں ایک ہم خیال گروپ کے خیالات پر ردعمل ہیں جبکہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کے دعوئوں پر بات سے گریز کیا گیا۔ ہماری دانست میں معاملہ بنچ اور سیاسی جماعتوں کے احترام و موقف سے زیادہ دستور کی بالادستی کا ہے۔ غیرمتعلقہ معاملے میں ازخود نوٹس لینے کی سفارش سے شروع ہوا بحران ہر گزرنے والے دن کے ساتھ شدید ہورہا ہے اس بحران کی شدت بڑھانے میں ان چند تقاریر کا بھی تعلق ہے جو اگر وائرل نہ کی جاتیں تو بہتر ہوتا۔ عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ کا فیصلہ جو بھی آئے یہ امر اپنی جگہ ہے کہ عدالت یہ طے کرنے سے گریزاں ہے کہ کیا کسی پیشگی سیاسی معاہدہ کے تحت اسمبلی کو تحلیل کرنے کی سمری بھیجنا آئینی طور پر درست ہوگا؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ اسمبلی تحلیلی کرنے کے لئے وزیراعظم یا وزرائے اعلی کو جو اختیار حاصل ہے وہ یکسر الگ ہے۔ بالفرض اگر یہ مان لیاجائے کہ یہ سوال ہی نہیں بنتا تو پھر اس سوال کا کیا جواب ہوگا کہ اپریل 2022 میں جب اس وقت کے وزیراعظم کی سمری پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی توڑی تھی تو سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیوں لیا تھا۔ وزیراعظم نے تو اپنا اختیار استعمال کیا تھا۔ اس ازخود نوٹس کے فیصلے میں جن وجوہات پر وزیراعظم کے اقدام کو نادرست قرار دیا گیا وہی وجوہات پیشگی سیاسی معاہدہ پر اسمبلی توڑنے کے عمل میں مدنظر کیوں نہیں رکھی جارہی ہیں؟ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ازخود نوٹس لینے اور فیصلے سے جنم لینے والے عدالتی بحران کی بدولت ملک میں جو عمومی فضا بن چکی ہے یہ قابل ستائش ہرگز نہیں۔ ملک کی اعلی ترین عدالت کے ججز اور ان کے خاندانوں کے حوالے سے سوشل میڈیا اور گلی کوچوں میں ہوتی بحث کسی بھی طرح درست نہیں یہ نوبت کیوں آئی اس پر یقینا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف اس پر غور کرنے کی بلکہ اس تاثر کو بھی زائل کرنے کی ہے کہ تین رکنی بنچ دستور و قانون کو بلڈوز کرنے کے ساتھ ساتھ ایک فریق بن چکا ہے۔ اس تاثر پر افسوس کیا جاسکتا ہے اس کے قائم ہونے کی وجہ کو نظرانداز کرنا مشکل ہوگا۔

مزید پڑھیں:  شفافیت کی طرف ناکافی قدم