گفتگو میں کوئی منطق نہ دلیل

سائیں منظور وسان کی حس پیشگوئی ایک بار پھر جاگ اٹھی ہے اور انہوں نے کچھ مبینہ تشویشناک صورتحال کی پیشگوئی کرتے ہوئے ملک میں ایمرجنسی لگنے کی بات کی ہے ‘ سائیں منظور وسان سے پہلے پیر صاحب پگاڑا اس قسم کی پیشگوئیاں کرنے کے لئے نہ صرف مشہور تھے بلکہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ‘ یہاں تک کہ پیر صاحب خود کو ”ادارہ خاص” کا نمائندہ قرار دیتے ہوئے ہمیشہ اس پر فخر بھی کیا کرتے تھے ‘ اور ان کی پیشگوئیوں کے حوالے سے یہ بیانیہ بہت حد تک عوام میں اس لئے پذیرائی کا حامل تھا کہ پیر صاحب کے بارے میں یقین کی حد تک کہا جاتا تھا کہ ان کا گفتہ مبینہ طور پر بقول شیخ رشید گیٹ نمبر چارسے برآمد ہوکر ان کے الفاظ میں ڈھل جاتا تھا اور ایسی پیشگوئیاں اکثر و بیشتر درست بھی ثابت ہوجاتی تھیں ‘ جیسے کہ ماضی میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ ایک امریکی خاتون ستارہ شناس جین ڈکسن کی زبان سے سال کے اواخر میں اگلے سال کے لئے مختلف ملکوں کے حوالے سے ایسی پیشگوئیاں کرواتی تھی جس پر آنے والے وقتوں میں سی آئی اے اپنے جاسوسوں کے ذریعے عمل درآمد کرکے ان ممالک میں مطلوبہ تبدیلیاں لانا چاہتی تھی ‘ اس سے ایک طرف امریکی مفادات کا تحفظ کیا جاتا تھا تو دوسری جانب جین ڈکسن کی پیشگوئیوں کی دھوم مچانا اور دھاک بٹھانا مقصود تھا ‘ تاہم جین ڈکسن کے انتقال کے بعد سی آئی اے کو اپنے منصوبوں پر عملدرآمد کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا رہا اور ایجنسی نے بعض دیگر ستارہ شناسوں کو سامنے لانے کی کوشش ضرور کی مگر بدقسمتی سے وہ اس میں ناکام رہی۔ اس لئے رفتہ رفتہ وہ اس پالیسی سے پسپائی پر مجبور ہوئی اور اب وہ دیگر طور طریقے استعمال کرکے اپنے مقاصد پورے کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے جیسا کہ ابھی حالیہ دنوں میں زلمے خلیل زاد جیسے کردار کوسامنے لا کر پاکستان کے حالات کے حوالے سے ”ہرزہ سرائی” کی صورت سامنے آئی ‘ تاہم جس طرح پاکستان کی مین سٹریم میڈیا ‘ سوشل میڈیا اور تجزیہ کاروں نے انہیں ذلیل کیا اس کے بعد موصوف تو اپنی ڈھٹائی پر اڑے رہے مگر ان کے ”حامی” پسپائی اختیار کرنے پر ضرور مجبور ہو گئے ۔ مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے آج سے تقریباً80/70 سال پہلے اس صورتحال پر کتنا خوبصورت تبصرہ کیا تھا کہ
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
نائو کاغذ کی کبھی چلتی نہیں
بلکہ اس صورتحال کو مرحوم پروفیسر محسن احسان نے ایک اور حوالے سے یوں واضح کیا ہے کہ
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
گویا یہ جوسیاسی حالات پر ستارہ شناسوں سے تبصرہ کروانے کا سلسلہ ہے یہ گزشتہ کل سے نہیں بلکہ صدیوں سے موجود ہے ‘ اس حوالے سے ناسٹرے ڈمیس ‘ بابا وانگا اوربعض دیگر افراد کے نام بھی مشہور ہیں جبکہ فرانس کے مشہور فرمانروا نپولین کے حوالے سے بھی ان کے دور کے ایک نجومی کا قصہ بہت مشہور ہے کہ جس زمانے میں ابھی نپولین ایک بالکل عام سا سپاہی(فوجی) تھا تو اس کا ہاتھ دیکھ کر اس نجومی نے اسے اپنے نام میں تھوڑی سی تبدیلی لانے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنا نام نپولین بونے پارٹ سے تبدیل کرکے نپولین بونا پارٹ کر دے تو اقتدار اس کے قدموں میں آگرے گا ‘ اور ہوا بھی یہی جب نپولین نے اپنے نام کو بونے پارٹ سے تبدیل کرکے بونا پارٹ کردیا تو اس نے اقتدار کی جانب تیزی سے سفر شروع کرتے ہوئے بالآخر فرانس پر مکمل دسترس حاصل کرلی ‘ اس کے بعد نپولین ہمیشہ اس نجومی سے مشورہ کرکے ہی جنگ کے میدان میں اترتا اور کامیابیاں سمیٹتا رہتا ‘ بدقسمتی سے مگر واٹرلو کی جنگ سے پہلے نجومی کے پیرس سے باہر ہونے کی وجہ سے بروقت اس سے مشاورت نہ ہوسکی اور جب نجومی کو پتہ چلا تو اس نے تیزی سے میدان جنگ میں پہنچ کر ایک رقعہ میں نپولین کو جنگ ترک کرنے کا مشورہ لکھ کر یہ رقعہ اس تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بے چارہ میدان جنگ میں خود بھی لقمہ اجل بن گیا اور جب شکست کے بعد اس کے ہاتھ میں دبا ہوا رقعہ نپولین تک پہنچایا گیا تب وہ ایک شکست خوردہ جنرل کی حیثیت سے نجومی کے مشورے پر عمل کرنے سے محروم رہ چکا تھا ۔ بقول رانا سعید دوشی
میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوق شہادت میں مارا جائوں گا
مرا یہ خون مرے دوستوں کے سر ہو گا
میں دوستوں کی حراست میں مارا جائوں گا
بات سائیں منظور وسان سے شروع ہوئی تھی جو عموماً پیشگوئیوں کے لئے اپنے خوابوں کا سہارا لیتے ہیں ‘ لیکن اب کی بار جو پیشگوئی انہوں نے فرمائی ہے اس میں کسی خواب کا عمل دخل کم ہی دکھائی دیتا ہے بس سیدھے سیدھے انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر اپریل میں اہم
فیصلے نہ ہوئے تو مئی میں بہت سے لوگوں کو جیلوں میں یا بیرون ملک جاتا دیکھ رہا ہوں ‘ انہوں نے مستقبل میں ملک کے حالات بہتر نہ ہونے کی بھی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر انتخابات ملتوی ہوئے تو ملک میں ایمرجنسی بھی لگ سکتی ہے ‘ اور عام انتخابات ہوئے بھی تو اس میں عمران خان وزیر اعظم نہیں بنیں گے ‘ کوئی اور آسکتا ہے ‘ انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کے لئے تیار ہیں ‘ اکتوبر میں نہیں تو اگست میں الیکشن ہو جائے ‘ حالات خراب ہوئے تو ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہونگے ‘ عمران خان غلطی پر غلطی کرتا رہے گا ‘ الیکشن اکتوبر میں نہیں ہو سکیں گے ‘ آئندہ انتخابات میں پی پی پی ‘ نون لیگ اور پی ٹی آئی میں کاٹنے کا مقابلہ ہو گا ‘ پنجاب میں الیکشن ہو رہے ہیں تو کے پی میں کیوں نہیں؟ سائیں منظور وسان ایک طرف تو اکتوبر میں الیکشن نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں جبکہ اگلے ہی لمحے اگست میں الیکشن ہو جائیں والے الفاظ کے اندر پناہ لیتے دکھائی دیتے ہیں اس پر کیا ان سے یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ کس اگست کی بات کر رہے ہیں ؟ اگست 2023ء یا پھر اگست 2024ء کی ؟ پھر وہ حالات خراب ہونے کی بھی پیشگوئی فرما رہے ہیں ‘ حالانکہ ذرا سا بھی عقل رکھنے والا اس قسم کی بات آسانی کے ساتھ نہیں کر سکتا اور موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کے لئے کئی واضح نشانیاں موجود ہیں ‘ اس لئے ایسا لگتا ہے کہ سائیں منظور وسان بھی یا تو عمر کے بڑھنے سے مبینہ طور پر”سٹھیا” گئے ہیں یا پھر جولوگ ان سے پیشگوئی کروانا چاہتے ہیں وہ اپنا پیغام واضح طریقے سے سائیں تک نہیں پہنچا سکے ‘ بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
گفتگو میں کوئی منطق نہ دلیل
کیوں مچاتے ہو بہت شور میاں

مزید پڑھیں:  آزادکشمیر میں ''آزادی'' کے نعرے