ہوائی فائرنگ کی لعنت

ہوائی فائرنگ ایک خطرناک رحجان اور قبیح عادت بلکہ اخلاقی و نفسیاتی بیماری ہے بدقسمتی سے خیبر پختونخوا کے معاشرے میں اس کا رحجان سب سے زیادہ ہے عید کے موقع پر کرکٹ میچ جیتنے کی خوشی میں بیٹا پیدا ہونے پر شادی و بارات کے موقع پر یہاں تک کہ غم غلط کرنے کے لئے بھی اسلحہ کا ٹریگر دبا کر جو لوگ اطمینان محسوس کرتے ہیں موت اور آگ کاکھیل جن لوگوں کو بھاتا ہے ان کی تربیت شخصیت اور ذہنیت کے بارے میں برا سوچنے کا حق اس لئے حاصل ہے کہ یہ ان کی ذات تک کا فعل و عمل نہیں بلکہ معاشرے اڑوس پڑوس قرب وجوار اور علاقہ و قریہ تک سبھی پر اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے خطرات سے خطرہ ہے جب ایک انسانیت کی جان بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے تو پھر ایک انسان کا قتل بھی پورے معاشرے اور انسانیت کے قتل اور اس کے مٹانے کا عمل ٹھہرتا ہے ۔ ہوائی فائرنگ کے مرتکب دست قاتل کو تو قتل خطاء کا نہیں قتل عمدکا مرتکب اس لئے ٹھہرانا چاہئے کہ قتل خطاء تو اچانک اور بے ارادہ قتل ہوتا ہے جبکہ ہوائی فائرنگ میں خطا نہیں ارادے کا عمل دخل ہوتا ہے ان کو علم اور اندازہ اگر نہیں ہوتا تو اس خطرے اور اس حرکت سے درجنوں معصوموں کی جان جانے کے واقعات کا بہرحال کو علم ضرور ہوتا ہے پھربھی اگر وہ باز نہیں آتاتو یہ خطا اور غلطی کے زمرے میں نہیں بلکہ باارادہ نہ سہی بہ عمل قتل کے زمرے میں ضرور آتا ہے بہرحال قطع نظر اس بحث کے ہوائی فائرنگ نہایت قبیح عمل ہے اور جوبھی اس کا مرتکب ہو اور جس جس کی یہ عادت ہوتو دنیا میں جہاں جہاں بھی ہوائی فائرنگ سے کوئی جاں بحق ہوجائے اس کے عمل کے باعث وہ بھی اس کا حصہ دار ہو گا۔ ہوائی فائرنگ کرنے والوں کو یہ معلوم ہو نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ بندوق کی گولی پندرہ سو میل فی گھنٹہ 670 میل فی سیکنڈ سے زیادہ کی رفتار سے سفر کرتی ہے جو آواز کی رفتار سے بھی دگنا ہے ماہرین کے مطابق صرف آٹھ گرام کی اس گولی کی طاقت و شدت تیس منزلہ عمارت سے گرنے والی ایک اینٹ کی توانائی اور اس سے کسی کو خطرہ کے مساوی ہوتی ہے ہوائی فائرنگ سے گولی ہوا میں تقریباً دس ہزار فٹ یا تیس کلو میٹر اوپر کی جانب سفر کرتی ہے اور واپس گرتے ہوئے کشش ثقل کی وجہ سے اس کی رفتار 241 کلو میٹر جتنی تیز ہوتی ہے اگر ہوائی فائرنگ کرنے والے کو یہ گولی اس رفتار اور طاقت کے اپنے کسی اعضاء پر گرنے کا خوف ہوتو چھت پر کھڑے ہو کر وہ فائرنگ کی بجائے مارے خوف کے باتھ روم میں چھپ جائے ۔مگر چونکہ ان کو اس کا خوف و احساس ہے اور نہ ہی معاشرے کاکہ ان کی بندوق پکڑ کر درندگی و حیوانیت کے جذبے کی تسکین کرنے سے روکنے والا ٹوکنے والا سمجھانے والا کوئی نہیں معاشرہ ایک طرف خود ان کے ماں باپ ‘ بہن بھائی بھی جب ان کو ایسا کرنے سے روکیں گے نہیں تو پھر اس طرح عید کے موقع پر معصوم جانوں کا ضیاع ہوتا رہے گاعیدالفطر کے مبارک موقع پر نجانے کتنے لوگ ہوائی فائرنگ کی لعنت کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے یا شدید ز خمی ہو کرموت وحیات کی کشمکش میں پڑے ہوں گے اس کا صحیح علم نہیں
مجھے درست تعداد سے کوئی لینا دینا نہیں تعداد کا کم یا زیادہ ہونا بھی معنی نہیں رکھتا ایک جان بھی چلی گئی ہو ایک فرد بھی گھائل ہوا ہے یا پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے کوئی ماں خوفزدہ خوف کے مارے باہر کھیلتے بچوں کو ہانک کر کمرے میں بند کرنے پر مجبور ہوئی ہو گھر کے اندر بھی بندوق کی آواز سے کوئی بے آرام ہوا ہو یہ سارا عمل اور اس کے اثرات قابل مذمت وصد افسوس ہیں ۔ کتنی کہانیاں اس معاشرے میں ایسی ہیں کہ کئی بہنوں کا اکلوتا بھائی بے اولاد جوڑے کا ارمانوں ‘ دعائوں اور علاج معالجے کے بعد پچیس برس بعد پیدا ہونے والا دس سالہ معصوم ہونہار اور قابل بچہ چاند رات کی فائرنگ میں شہید ہو کر عید الفطر کی خوشی کو خاندان اور اہل علاقہ کو غمگسار بنا گیا ہو ۔ کتنی معصوم لڑکیاں ہاتھوں میں مہندی رچائے پیا کے گھر کی بجائے قبرستان رخصت ہوئی ہوں۔ کتنے جوان سال تعلیم یافتہ اعلیٰ ملازمتوں پر فائز فرد ملک و قوم پر قربان ہونے کی بجائے بے موت مارا گیا ہو ۔ ایسی ایسی کہانیاں اور واقعات کہ سن اور جان کر کلیجہ منہ کوآئے مگر افسوس ہماری بے حسی کے باعث اس کے باوجود یہ عمل رکنے کا نام نہیں لیتا۔ انسان ہی انسان کے ہاتھوں بلا عداوت تضاد و تنازعہ بے گناہ بے قصور اچانک راہی ملک عدم کوسدھار جاتا ہے اور کوئی کچھ نہیں کر پاتا ۔ خیبر پختونخوا میں اس جرم کی سزا کا قانون بھی موجود ہے پولیس اور انتظامیہ ہوائی فائرنگ کی ممانعت اور سخت کارروائی کا انتباہ بھی جاری کرتی ہے مگر عملاً کچھ نہیں ہوتا کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوتی حکومتی عملداری کے قیام اور نفاذ قانون کے لئے کوئی ٹھوس اور سخت
اقدامات نہ ہوں تو یہ مذاق بن کر رہ جاتے ہیں اور جو چیز مذاق بن جائے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے ۔اولاً قانون ہی ڈھیلا ڈھالا ہو پھر اس کا نفاذ کمزور ہو اور جب مقدمہ بن بھی جائے مگراسے ثابت کرنے اور فیصلہ تک کا عمل چھلنی اور غلبیل جیسا ہو تو مطلوب فضا ء ہی پیدا نہیں ہو گی جو اس طرح کی ذہنیت کے لوگوں کے لئے روک کا ذریعہ بن کے اخلاقیات ‘ شرافت دوسروں کی زندگیوں کے تحفظ اور ان کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کرنے جیسے عمل کی تو اس سطح کے لوگوں سے توقع ہی عبث ہے ان کا علاج لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے معاشرتی دبائو اور بروقت مداخلت ہی سے ہوسکتا ہے دوسری کوئی صورت موثر و کارگر شاید ہی ہو البتہ اگر ماں کی گود ‘بچپن ہی سے اس ذہنیت کو بدلنے کی سعی ہو سکولوں ‘ کالجوں اور جامعات میں اس لعنت کی تباہ کاریوں اور قبیحیت کے حوالے سے ذہن سازی کی جائے معاشرے میں اس سرگرمی کو برا اور قابل اعتراض بنانے کے لئے کوششیں ہوں اور ہر سطح پر ہر طریقے سے اس کے تدارک کی مساعی ہوں تویہ اس لعنت کی روک تھام میں مدد گار عمل ثابت ہو سکتا ہے اس کی ابتداء کھلونا بندوقوں ‘ کھلونا پستول پٹاخوں اور دھماکہ خیز و اسلحہ نما چیزوں سے کھیلنے کے عادی ہونے کی روک تھام کے طور پر ان چیزوں سے متعارف ہی ہونے نہ دیا جائے ان اشیاء کی تیاری اور مارکیٹ میں موجودگی بازار سے ان چیزوں کی خریداری ہی کے مواقع مسدود کئے جائیں تبھی انسداد ہوائی فائرنگ کے لئے اسے سنجیدہ قدم قرار دیا جا سکے گا مگر یہ سب خواب و خیال کی باتیں لگتی ہیں اور خواب دیکھنے پہ کوئی پابندی نہیں۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں