کاش تو بھی کبھی آجائے مسیحائی کو

حبیب جالب کو اگر یہ پتا ہوتا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ نہ صرف روٹی کے نام پر پاپڑ نما روٹیاں خریدنے پر مجبور ہوں گے بلکہ ایک روٹی بھی 25 روپے کی ہو جائے گی تو وہ یہ کبھی نہ کہتا کہ
بیس روپیہ من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر، سہگل، آدمی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
یہ شاعری ایوبی آمریت کے زمانے کی ہے جب نہ صرف آٹا مہنگا اور ناپید ہوگیا تھا بلکہ روٹیوں کے حصول کیلئے لوگ نانبائیوں کی دکانوں کے آگے قطار باندھے کھڑے ہوتے اور اپنی باری آنے پر مطلوبہ تعداد میں روٹیاں لینے پر مجبور ہوا کرتے تھے، اس صورتحال کو مرحوم مرزا محمود سرحدی نے یوں واضح کیا تھا کہ
کرم اے شہ عرب و عجم
ہے وہ روٹیوں کا پرابلم
کھڑے ہم ہیں ایسے قطار میں
کہ کھڑے ہوں جیسے نماز میں
یہ وہ دور تھا کہ جب پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم میں خودکفالت کی منزل سے کوسوں دور امریکی امدادی پروگرام کے تحت پی ایل 480 کے معاہدے کے تحت امریکی گندم سے مستفید ہوتا تھا اس کے باوجود گندم اور آٹے کا ”بھائو” معلوم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا تھا اور جب آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو روٹی کی قیمت بڑھا دی جاتی تب عوام کی مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حبیب جالب نے پاکستان کے چند نام جو ان دنوں کے حوالے سے بائیس خاندانوں میں شمار ہوتے تھے اور جن کے ہاتھوں میں پاکستان کی پوری معیشت جکڑی ہوئی تھی کا ذکر کر کے انہیں بھارت کے بھی اس دور کے دو بڑے صنعتکار خاندانوں یعنی برلا اور ٹاٹا کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے طنز کیا تھا اب تو پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور نہ صرف بھارت میں برلا اور ٹاٹا خاندانوں کی جگہ بجاج، امبانی اور کچھ دیگر خاندان بھارت کی معیشت کے مالک بن بیٹھے ہیں بلکہ پاکستان میں بھی اب ارب پتیوں کی تعداد گننے میں نہیں آرہی، اس لئے کس کس کا تذکرہ کیا جائے۔ خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے اصل مسئلہ تو گندم، آٹا اور روٹی کا ہے اور ایسا لگتا ہے گزشتہ چند برس پہلے جب پاکستان گندم میں خودکفیل ہوجانے کے بعد موسمی تغیرات، سیلابوں وغیرہ کی وجہ سے دوبارہ گندم کی درآمد پر مجبور ہوگیا تھا اس سال وزیراعظم نے ابھی حال میں گندم کی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہونے کی خوشخبری سنائی لیکن اس کے باوجود خیبرپختونخوا کو گندم سے محروم رکھنے کی پالیسی کے پرانے منصوبے پر عملدرآمد شروع کردیا گیا ہے اور لگتا ہے کہ اس قسم کے منصوبوں کے پیچھے سرگرم ہاتھ ایک بار پھر مزید سرگرم ہوگئے ہیں حالانکہ یہ نہ صرف آئین کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے بلکہ قانونی اور اخلاقی طور پربھی درست اقدام نہیں ہے، بدقسمتی سے یہ صورتحال کوئی نئی بھی نہیں ہے بلکہ نہ صرف موجود وزیراعظم کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور ان سے پرویز مشرف دور میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت پنجاب کا چھوٹے صوبوں کے ساتھ گندم اور آٹے کی فراہمی کے حوالے سے یہی رویہ رہا ہے کہ وہ گندم وافر مقدام میں ہوتے ہوئے بھی خصوصی طور پر خیبرپختونخوا (تب صوبہ سرحد) اور بلوچستان کو سپلائی روک کر ان دونوں صوبوں میں قحط جیسی صورتحال پیدا کردیتے تھے، چالاکی یہ کی جاتی تھی کہ جب عدالتوں سے رجوع کرکے یہ صوبے ریلیف لے بھی لیتے تو بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی ہٹا دی جاتی مگر پنجاب کی حکومت گندم اور آٹے کی بین الاضلاعی نقل و حمل پر پابندی لگا دیتی اس کے برعکس بڑے بڑے تاجروں اور آڑھتیوں کے کارٹل حکومت سے گندم (ضرورت سے زیادہ ہونے کی بناء پر) کی برآمد کی اجازت حاصل کرلیتے اور گندم سستے داموں خرید کر باہر بھیج دی جاتی اس سے پیچھے بھی اصل کہانی بعد میں کھلی کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ اس تمام ”کھیل” کے پیچھے ان کا بھی ہاتھ رہا ہے اور انہوں نے ”اضافی” گندم باہر پہنچا کر ذخیرہ کرلی اور جب ملک میں گندم ”ناپید” ہوگئی تو وہی سستے داموں برآمد کی جانے والی گندم مہنگے داموں”درآمد” کرکے ملی بھگت سے انہی برآمد کنندگان کو درآمد کنندگان بناکر اربوں روپے ڈکار لیتے جبکہ ملک کے اندر گندم آٹے اور روٹی کی قیمتوں کو پر نہیں شہپر لگ گئے تب سے یہ صورتحال قابو میں نہیں آرہی ہے اور پھر جب سابق حکومت نے ملکی معیشت کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد اس سے یوٹرن لیا کیونکہ اسے احساس ہوگیا تھا کہ اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی ہے تو اس نے جان بوجھ کر ملکی معیشت کے اندر ”بارودی سرنگیں” بچھاتے ہوئے معاہدے کی خلاف ورزی کی جو موجودہ حکومت کیلئے تباہ کن نتائج لانے کا باعث بن گئی اور اب مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی کوشش کامیاب ہو رہی ہے نہ ہی آئی ایم ایف ہم پر اعتماد کرنے کو تیار ہے بقول فراز
کاش تو بھی کبھی آجائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دکھانے کیلئے
بات آٹے کی ہو رہی تھی اگر اس حوالے سے محاورہ ”آٹے دال کا بھائو” معلوم ہونے کا ہے یعنی بقول وزیراعظم اب کے سال گندم ضرورت سے زیادہ پیدا ہونے کے باوجود اگر خیبرپختونخوا کو پھر بھی بعض خفیہ ہاتھ گندم کی فراہمی میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور جس پر فلور ملز ایسوسی ایشن نے احتجاج بھی ریکارڈ کرا دیا ہے جبکہ نانبائیوں کے تیور بھی تیکھے دکھائی دے رہے ہیں اور تازہ خبروں کے مطابق پہلے ہی سے پاپڑ نما روٹی جو اب تک 20 روپے میں عوام خریدنے پر مجبور ہیں اسے مزید مہنگا کرنے کا تہیہ کرتے ہوئے شہر کے نانبائیوں نے ایک بار پھر اکٹھ کرتے ہوئے قیمت 25 روپے مقرر کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے جس پر ممکن ہے ان سطور کے شائع ہونے تک عملدرآمد ہو بھی چکا ہو تو عوام کہاں جائیں گے۔ موجودہ نگران صوبائی حکومت کیوں خاموش ہے اور کیوں عدلیہ سے رجوع نہیں کر رہی کہ آخر کس آئین کے تحت اشیائے ضروریہ کی نقل و حمل کو روکا جاسکتا ہے؟ کہ بقول شاعر
باتوں باتوں میں خرافات پہ آسکتا ہے
جو بھی کم ظرف ہو اوقات پہ آسکتا ہے
اتنا مغرور نہ بن سامنے تاریخ بھی رکھ
بانٹنے والا بھی خیرات پہ آسکتا ہے

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند