آنی بانی سب ہوا پانی

جس طر ح ملک ریاض رئیل اسٹیٹ کے ٹائیکون تسلیم کئے جاتے ہیں اسی طرح اے کے ڈھیڈی کو بھی اسٹاک ایکسچنج کا ٹائیکون مانا جاتا ہے وہ عمران خان کی رہائی کے بعد پہلے شخص ہیں جنہوں نے زمان پارک جاکر عمران خان سے ملا قات کی جب اے کے ڈھیڈی سے ملاقات کے بارے میں استفسار کیاگیا تو انہوں نے ٹالنے کی غرض سے کہہ دیا کہ وہ عمران خان سے ملک کی معیشت کے بارے میں تبادلہ خیال کرنے آئے تھے، حیران کن بیان تھا کیوںکہ معیشت کا صیحیح تلفظ تو عمران خان سے درست ادا نہیں ہو پاتا ہے کہ وہ بلوائیوں کی تپش میں ملاقات کیلئے زمان پارک چلے آئے، البتہ کچھ ہی دیر بعد پی ٹی آئی کے میڈیا سیل نے پول کھول دیاکہ عمران خان کو پیش کش کی گئی ہے کہ ملک سے پدھار جائیں جہاز تیار کھڑا ہے لیکن خان نے ایبسولوٹلی ناٹ کہہ دیا، کرنسی کے کاروبار کے ٹائیکون عقیل کریم ڈھیڈی جن کو اے کے ڈھیڈی کے نام سے جانا جاتا ہے 2000ء سے پہلے عام سی کاروباری شخصیت تھے تاہم مارکیٹ میں بحران پیدا ہو نے پر انہوں نے ایسا کرتب کیاکہ راتوں رات سب سے بڑا نام بن گئے، کاروباری طریقہ ان کا بھی ملک ریاض جیسا ہی ہے دونوں نے اپنے کاروباری مفاد کے لئے اعلیٰ ریٹائرڈ سول و ملٹری افسروںکی خدمات لے رکھی ہیں اور ملک میں طاقتور اثر رسوخ رکھتے ہیں، ان کے پاس ایسے افسروں کے اسٹاک ایکسچنج کے اکاؤنٹ بھی ہیں، اے کے ڈھیڈی نے مشرف کے دور میں ایک اپنا نیٹ ورک بنانا شروع کیا تھا جس میں اعلیٰ ملازم پیشہ افراد کو منافع بخش سرمایہ کاری کی سہولت فراہم کی گئی تھی، جب انہوں نے عمران خان سے ملا قات کی تب ان کی شخصیت سے واقفیت رکھنے والوں کا تبصرہ تھاکہ وہ ملک ریاض کی طرح مفاہمتی کردار کے ساتھ تنبیہ کا بھی کر دار ادا کرتے ہیں، ڈھیڈی کے عمران خان سے گہرے تعلقات ہیں، 2014ء کے دھرنے کے دوران ڈھیر ساری مالی ضروریات کو بھی انہوں نے پورا کیا، یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ یوتھئیہ میڈیا سیل کے اخراجات میں بھی ان کا کافی سارا دست شفقت شامل ہے، پروپینگڈہ کرنے میں یوتھیئے لاثانی ہیں کا تقابل نہیں کیا جا سکتا تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے نائب وزیر داخلہ پاکستان روڈ تو مکہ کے معاہدے کے لئے پاکستان آئے تو اس کو بھی یوتھئیہ میڈیا نے نواز شریف کی طرح سعودی عرب پناہ دینے سے جوڑ دیا علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات کے امیر محمد بن زید النہان کے ٹیلی فون جو انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو کیا اس کو بھی اسی مشن سے جوڑ دیا، خطہ عرب میں دو طاقتور اور اثر رسوخ رکھنے والی شخصییات ہیں، دونوں کا نام محمد ہے ان میں سے ایک عرب امارات کے امیر محمد بن زید النہان اور دوسرے ولی عہد سعودی عرب محمد بن سلمان ہیں، جب اوباما امریکی صدر تھے تب محمد بن سلمان ان سے کھچے کھچے سے رہتے تھے، چنانچہ امیر عرب امارات محمد بن زیدالنہان نے دونوں کے مابین قربت پیدا کرنے میں کردار ادا کیا، علاوہ
ازیں اپنے دور اقتدار میں اوباما نے سب سے زیادہ ٹیلی فونک رابطہ جس غیر ملکی شخصیت سے رکھا وہ امیر کویت محمد زید بن النہان تھے، ان سب حالات میں یہ سمجھنے کی بات ہے کہ 9 مئی کے واقعات سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس میں پی ٹی آئی کے پردہ سلور سکرین پر سیاہی چھا گئی ہے، کیوں کہ جوکچھ ہوا وہ کسی طور عوام کو قابل قبول نہیں کیوں کہ بلوہ کا یہ کردار کسی دشمن سے تو متوقع ہو سکتا ہے لیکن کسی محب وطن سے ہر گز نہیں کیا جا سکتا ہے، البتہ کچھ طاقتور کردار ادا کرنے کی مساعی کر رہے ہیں کہ بھٹو مرحوم یا نواز شریف جیسے کردار کو دوبارہ پاکستان میں نہ دہرایا جائے اس سلسلے میں بعض حلقوں کی جانب سے تجویز ہے کہ عمران خان پاکستان سے باہر چلیں جائیں، یہ ناممکن بھی نہیں ہے لیکن ان کا ضامن کون بنے گا جب نواز شریف کو سعودی عرب نے پناہ دی تھی اس وقت ضامن کے طور پر لبنان کے رفیق حریری نے دستخط کئے تھے اور شریف خاندان نے دس سالہ معاہد ہ کی پوری پاسداری کی تھی، حالاں کہ معاہدے پر شریف خاندان کے کسی فرد کے دستخط موجود نہ تھے لیکن خان کے بارے میں رسک لینا ممکن نہیں ہے ویسے بھی موصوف کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کو اقتدار سے نکالا گیا تو وہ پہلے سے زیادہ خطرِناک ہو جائیں گے، ایسا انہوں نے کر دکھایا، گو ابھی تک کسی طرف سے کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے مگر اڑتی اڑتی جو خبر سینہ بہ سینہ چل رہی ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ خان کی سابق اہلیہ جمائما کا خاندان متحرک ہو گیا ہے، عمران خان کی گرفتاری پر جائما کے بھائی نے بھی اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ ان کے بہنوئی کو گرفتار کر
کے اذیت پہنچائی گئی ہے، انہوں نے سابق بہنوئی نہیں لکھا گویا وہ اب بھی بہنوئی مان رہے ہیں، جائما کا خاندان برطانیہ کا بہت بڑا کاروباری خاندان ہے اور اسی بناء پر عالمی اسٹبلشمنٹ سے گہرے تعلقات کا حامل بھی ہے، اگرچہ یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ اپنی کاوشوں کے سلسلہ میں اس خاندان نے حسین نواز سے بھی رابطہ کیا ہے، حسین نواز بھی برطانیہ کے ایک بڑے بزنس مین شمار ہوتے ہیں تاہم چند دنوں میں بات کھل جائے گی کہ کاوشوں کا اصل رخ کیا ہے، پی ٹی آئی کی سیاسی صورت حال کیا ہے اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب زمان پارک کی پولیس نے ناکہ بندی شروع کی تو کپتان نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ان کے گھر کا محاصر ہ کیا جا رہا ہے، شاید دوسری مرتبہ میری گرفتاری سے پہلے یہ ان کا آخری ٹوئٹ ہو، یہ پہلی مرتبہ ان کے مایوس کن جذبات منظر عام پر آئے ہیں ورنہ وہ ایسے مواقع پر ٹائیگر فورس اور یوتھئیوںکو سڑکوں پر نکل آنے کی کال دیا کرتے ہیں جو اس مرتبہ نہیں دے پائے، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہنے والے کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔ خیر چھوڑیں اس بات کو علاوہ ازیں پہلے ایسے حالات میں پارٹی کے لیڈروںکی جانب سے بھی سڑکوں پر آجانے کی پکار دی جاتی تھی وہ بھی ایسے خاموش ہیں جیسے مٹھی لسی پی بیٹھے ہیں اور نہ زمان پارک کی اس طرح ناکہ بندی پر ازخود یوتھئیے باہر آئے ہیں، ناکہ بندی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ چالیس سے پچاس خطرناک بلوائیوں نے زمان پارک میں پناہ لے رکھی ہے ان کو پولیس کے حوالے کرنے کے مطالبہ کا دباؤ ہے تاہم یہ امر یقینی ہے کہ بلوائیوں کو بنا حساب کتاب نہیں رہنے دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے