گھڑ دوڑ شروع مگر نئے اصطبل ندارد

خیالستان میں حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں’ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے سیاسی رہنمائوں کے بیچ، اس سے پہلے کہ اپنے تجزیئے یا تبصرے کو آگے بڑھایا جائے ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں آپ سے گزارش ہے خدارا اس لفظ کو اس کے ہم رنگ ، ہم وزن بلکہ ہم قافیہ کسی لفظ کے ساتھ جوڑ مت دیجئے گا اور اگر آپ نے یہ غلطی کرتے ہوئے اسے ”خالصتان” سمجھ لیا تو نتائج کے آپ خود ذمہ دار ہیں، بالکل ویسے ہی جس طرح خیالستان میں ان دنوں ایک ٹویٹ چل رہی ہے جس میں تنبیہ کی گئی ہے کہ وہاں ایک ایسا ایکٹ نافذالعمل ہو چکا ہے جس کے تحت وٹس ایپ گروپ میں ہر بندہ اپنے لکھے گئے الفاظ اور پوسٹس کا ذمہ دار ہے’ کسی بھی غلط پوسٹ کے سنگین نتائج بھیانک ہوں گے’ تو اسی لیے ہم نے خیالستان اور خالصتان کے درمیان فرق واضح کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گزارش کی ہے کہ خالصتان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بقول شاعر ” اس شاعری میں عزت سادات بھی گئی” کا دھیان ضرور رکھئے کیونکہ خیالستان تو ایک خیالی سلطنت ہے جس پر آپ بنانا ری پبلک کا گمان کرتے ہوئے کچھ بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ خالصتان پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ نازک صورتحال کا سامنا کرنے پر بھی آپ کو مجبور ہونا پڑ سکتا ہے’کیونکہ اس(فی الحال یہ بھی خیالی ریاست ہی ہے)پر بات کرتے ہوئے اندرا گاندھی سے لیکر نریندر مودی تک کی فکر کرنا پڑتی ہے’ یعنی جب سردار بھنڈرانوالہ نے اس کے قیام کے لئے جدوجہد اس لئے شروع کی کہ تقسیم کے بعد ہندو برہمن زادوں نے خالصہ برادری کو مسلمانوں کے خلاف اکسا کر فسادات کروائے اور مسلمانوں کو پاکستان کے قیام کے مطالبے پر تہہ تیغ کروایا اور دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کر دی اور اس کے عوض سکھوں کو بھارت میں ایک خاص مقام عطا کرنے کے وعدے کئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ان وعدوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے سکھوں کو بھی مسلمانون ‘عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کی صف میں لا کھڑاکیا’ ان کے حقوق بھی بہت حدتک سلب کئے تو خالصہ برادری کو بھی اس دھوکہ دہی کے احساس نے دکھ دیا، انہیں بر صغیر میں پنجاب اور موجودہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وسیع و عریض علاقوں پرمہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکمرانی کا دور یاد آیا، اور ایک بار پھر بھارتی پنجاب اور لدھیانہ وغیرہ میں خالصتان کے قیام کی سوچ پنپنے لگی’ مگر بر ہمن زادی اندرا گاندھی نے گولڈن ٹمپل یعنی دربارصاحب جیسے سکھوں کے مقدس مقام میں پناہ لینے والے بھنڈرانوالہ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کریک ڈائون کرکے نہ صرف دربار صاحب کی اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے بے حرمتی کی بلکہ اس کے بعد پورے بھارت میں سکھوں کے خلاف کریک ڈائون کرکے ان کی نسل کشی کی کوشش کی ‘وقتی طور پر تو بھارتی حکومت اندرا گاندھی کی پالیسیوں کے تحت اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئی لیکن آزاد خالصتان کی تحریک انڈر گرائونڈ چلی گئی اور کچھ ہی عرصے بعد اس کے خطرناک نتائج اندرا گاندھی کے اپنے ہی سکیورٹی گارڈز کے ہاتھوں قتل کی صورت نکل آئے اس کے نتیجے میں ایک بار پھر سکھوں کے خلاف ایک اور کریک ڈائون سے تحریک کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر یہ سب کچھ بھی وقت طور پر ہی ہوا ‘ سکھ برادری کے اعلیٰ دماغوں نے بھارت کے اندر تحریک کی کامیابی کی راہ میں کئی طرح کی رکاوٹوں کا اندازہ لگا کر اس تحریک کو پوری دنیا میں پھیلا دیا اور گزشتہ کچھ عرصے کے دوران متعدد ممالک میں آزاد خالصتان کے نام پر ریفرنڈم کروا کر اقوام متحدہ سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ بھارت میں آزاد خالصتان کے قیام کے لئے بالکل ویسے ہی اقدام کرے جیسے کہ ایک مسلمان ملک کے عیسائی اقلیتوں کے مطالبے پر اسے تقسیم کیا گیا۔ اس صورتحال یعنی ریفرنڈم کو رکوانے کے لئے نریندر مودی نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ‘ لیکن بری طرح ناکام رہے اس لئے اگر خیالستان کو آپ نے غلطی سے خالصتان سمجھ لیا تو اس میں دونوں فریقوں کے ساتھ ایک جانب اظہار یکجہتی یعنی خالصتان کے حامیوں کو آپ خوش کریںگے مگر نریندی مودی کے حامیوں کی دل آزاری کا بھی خدشہ ے اس لئے خیالستان کو وزن و قافیہ بندی کے حوالے سے درست ادا کرتے ہوئے آپ خیالستان میں ان دنوں تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی ”قافیہ بندی” کا درست ادراک کرسکتے ہیںاور اس صورتحال سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں جو ان دنوں ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر بھاگنے والوں کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے ‘ ان میں بعض تو سیاسی جماعت کو خیرباد کہنے کی وجہ سے اس سیاسی میراتھن کا حصہ بنے ہوئے ہیں جبکہ ایک لحیم شحیم بے چارہ گزشتہ دنوں سرکاری عمال کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ایسے بھاگا کہ اس کی جان پر بنی آئی یعنی اگر اسے کچھ وکلا سہارا دے کر بروقت اسے پانی نہ پلا دیتے تو (اللہ نہ کرے) بے چارہ جان سے بھی جاسکتا تھا ‘ موصوف کی اہلیہ نے گزشتہ روز ان کی اس حرکت پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے آئندہ انہیں میراتھن ریس میں بھیجنے کا عندیہ دیا ہے حالانکہ وہ خیالستان کے سابق حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے ہی اپنی جماعت کوچھوڑ کر دوسری دونوں بڑی جماعتوں میں جانے کے لئے میراتھن ریس میں مصروف ہیں لیکن کسی ایک کی جانب سے ”گھاس” نہ ملنے کی وجہ سے بہ ا مر مجبوری اپنی جماعت کے ساتھ ”کمبل” بن کر چمٹے ہوئے ہیں اور اب خیالستان میں ان کی جماعت نے جو”کارنامے” انجام دیئے ہیں انہیں”سپاہی” سے موسوم کرتے ہوئے بہرحال اسی نام خیالستان کی سیاست میں منانے کا عندیہ دے دیا گیا ہے جبکہ جماعت کے سربراہ نے اپنے ”وفاداروں” کی فہرست سے بھی انہیں خارج کر دیا ہے کہ جب وفاداروں کا تذکرہ کیا تو ان کا کہیں ذکر نہیں کیا ‘ ادھر گھڑ دوڑ ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے اصطبل سے ”منہ زور” گھوڑے بھاگنے کو ہیں ‘ چند ایک تو رسی توڑ کر نکل بھی چکے ہیں ‘ اور ”باقی جوہیں تیار بیٹھے ہیں” والی کیفیت سے دو چار ہیں ‘ دراصل یہ مکافات عمل بھی ہے اور خیالستان کی سیاسی روایت کا حصہ بھی ‘ کیونکہ پونے چار سال والے دور سے پہلے جس طرح ان گھوڑوں کو ہانک کر نئے استھا ن پر پہنچایا گیا تھا ‘ کئی ایک کو اڑن کھٹولے میں بڑے تزک و احتشام سے لا کر گلے میں”پتے” ڈالے گئے وہ منظر دوبارہ دیکھنے کو ملے گا۔ اڑن کھٹولے کی بات چلی ہے تو شنید ہے کہ ایک اور اڑن کھٹولا خیالستان کے کسی ہوائی مستقر پر آکر”تیل بھرنے” کے لئے کھڑا ہے جبکہ خیالستان کے ایک ”راندہ درگاہ” مسافر کو بڑی طاقتوں کی مداخلت پر اسی اڑن کھٹولے میں اڑان سے لطف اندوز ہونے کی کوششیں کی جارہی ہیں ‘ کہتے ہیں کہ یہ عالمی قوتیں ہمیشہ اپنے ”اثاثے” بچا کر رکھتی ہیں تاکہ ”بوقت ضرورت کام آئیں”۔ یہ قوتیں پاکستان کودلدل میں پھنسانے میں ناکام ہونے کے بعد اب اس کوشش میں ہیں کہ فی الحال مکھن میں سے بال کے محاورے کو بروئے کار لا کر اپنے تیزویراتی اثاثے کو محفوظ کرکے چند برس بعد دوبارہ میدان میں اتارا جائے ‘ مگر انشاء اللہ خیالستان کے مبینہ طور پر مزید تین ٹکڑے کرنے کی سازش کبھی کامیاب نہ ہو سکے گی کہ عوام اور افواج ایک مٹھی ہیں۔ وماعلینا الالبلاغ۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں