ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی واقعی ایک معمہ ہے عام لوگ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ زندگی ہی کو بہت کچھ سمجھتے ہوئے اس کو فرصت کے طور پر لے کر لطف اٹھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتے، یہی وجہ ہے کہ گئے وقتوں میں ہمارے برصغیر کے شہرہ آفاق حکمران بابر صاحب نے کہا تھا کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست (بابر عیش کر لو زندگی دوبارہ نہیں ملتی) مغرب میں غالب فلسفہ حیات بھی یہی ہے کہ زندگی ایک فرصت ہے، لہٰذا جو بس میں آئے کر گزرو لیکن انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص خاتم النبیین صلی اللہ علیہ الہ وسلم نے جو فلسفہ حیات دیا وہ تمام فلسفوں پر بھاری ہے، قرآن کریم نے زندگی کو ”متاع الغرور” دھوکے کی چیز فرمایا ہے، لہٰذا اس میں دل لگانے کی ضرورت نہیں البتہ جو ابدی زندگی اس عارضی و فانی زندگی کے بعد آنے والی ہے اس کی تیاری کیلئے یہ دنیا اور اس کی زندگی ایک بہترین موقع اور فرصت ہے، اس لئے آقائے دوجہاںۖ نے اس دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا ہے لیکن آخرت سے پہلے کی فرصت زندگی کو بہتر اور پرسکون انداز میں گزارنے کیلئے بھی آپۖ نے جواصول و تعلیمات عطاء فرمائی ہیں وہ بے مثال ہیں اس میں فرد اور اجتماع کی ذمہ داریوں اور حقوق کا وہ حسین امتزاج پیش کیا گیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو یہ دنیا بھی جنت عدن بن سکتی ہے۔ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پاکستان کے حصول کیلئے بے بہا قربانیاں دے کر یہی خواب اپنی آنکھوں میں سجائے تھے کہ اس پاک سرزمین پر اس پاک سرزمین (مدینہ طیبہ) کی پر چھائیں ضوفشاں ہوں گی۔ یہاں ”مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے گا” مسلمان وہ ہے جو اپنے بھائی کیلئے بھی وہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرے” کا غلغلہ بلند ہوگا۔لیکن یہاں تو گزشتہ 75 برس سے وہ تماشا لگا ہوا ہے کہ الآمان والحفیظ، انفرادی زندگی میں یہاں کے عوام کو کبھی بھی معیاری زندگی کا تصور بھی حاصل نہ ہوا یہاں کی کروڑوں کی آبادی کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے تقریباً سولہ گھنٹے جاں گسل محنت شاقہ سے گزرنا پڑتا ہے، تعلیم حاصل کرنے کے نہ سہل و معیاری مواقع و ذرائع موجود ہیں نہ ہی ہسپتالوں میں غریب عوام کو صحت اور علاج معالجہ کے مواقع میسر ہیں جس کے فقدان کے سبب وطن عزیز آج افغانستان اور سری لنکا کی صف میں بھی نیچے کھڑا ہے، کوئی تصور کرسکتا کہ وطن عزیز میں آج بھی دو ڈھائی کروڑ بچوں کو سکول جانا ہی نصیب نہیں، کروڑوں عوام کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں۔ ستر فیصد پانی پینے کے قابل نہیں، دیہات کی ستر فیصد آبادی کا برا حال ہے، شہروں میں پینے کے پانی کی لائنیں گٹروں اور سیوریج کی لائنوں پر سے گزرتی ہوئی ہیپاٹائٹس جیسے موذی امراض کو عام کرنے کا سبب بن رہی ہیں ۔کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ کوئی شرم کی بات ہی نہیں رہی۔ دودھ جیسی نعمت میں غضب خدا کا تحفظ (پریزرویشن) کیلئے لاشوں پر تحفظ کیلئے لگانے والا کیمیکل ملایا جاتا ہے، امن عامہ کا یہ حال ہے کہ گھر سے نکلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے، ناقص خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء کے سببب شوگر اور بلڈ پریشر عام بیماریاں بن گئی ہیں، ان سب پر مستزاد ہوشرباء مہنگائی نے عوام کے اوسان خطا کردیئے ہیں، گزشتہ ساٹھ برس میں ایسی مہنگائی کبھی پاکستانی عوام نے نہیں دیکھی تھی، سفید پوشوں کو سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا دشوار ہوا ہے، اسی بناء پر آج پاکستانی عوام کی اکثریت کی زندگیاں عبث سی بنتی جاری ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستانی عوام پر پشتو زبان کے عظیم شاعر اجمل خٹک کی یہ فکر کتنی صادق آتی ہے۔
دلتہ دہ گیڈے دوزخ تش گرزوو ھلتہ شو ستا در دوزخونوں خشاک
دلتہ دہ دغہ قصابانو خوراک ھلتہ دہ ھغہ خامارانو خوراک
نہ مو زان تور کو او نہ سپین پاتے شو نہ دہ دنیا شو نہ دہ دین پاتے شو
سیاست وطن عزیز پر چند موروثی جماعتوں کا ایسا قبضہ ہوچکا ہے کہ اگر کوئی سٹیٹس کو کوئی توڑنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو اس کو دیدہ عبرت نگاہ بنانے کیلئے دیدہ و نادیدہ قوتیں قابل رشک اور سمجھ نہ آنے کی حد تک جادوئی اور معجزاتی انداز میں ایک ہوجاتی ہیں اور ہم جیسے لوگ مبارک دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔
یہ اتحاد مبارک ہو مومنوں کے لئے
کہ یک زباں ہیں فقیہان شہر میرے خلاف
اس اتحاد نے وہ معجزے برپا کردیئے ہیں کہ ایک اچھی بھلی اکثریت اور مقبولیت رکھنے والی سیاسی جماعت کے بڑے بڑے دعوے کرنے والے اراکین تاش کے پتوں کی طرح بکھر کر رہ گئے ہیں اور اس جماعت سے دلی وابستگی رکھنے والوں کو دل پر ہاتھ رکھ کر کہنا پڑ رہا ہے
اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا
کیا بدقسمتی ہے ہماری کہ سیاسی جماعتوں کا بننا، ٹوٹنا، بکھرنا اور ایک دوسرے میں مدغم ہونا اور غائب ہونا ایک کھیل بن گیا ہے جبکہ اچھے ملکوں میں سیاسی کھیل کے ایسے اصول کار فرما ہیں کہ انسان کا دل عش عش کر اٹھتا ہے، ترکی میں دیکھیں نا طیب اردگان عام لوگوں کے ساتھ ووٹ ڈالنے کیلئے قطار میں کھڑا ہے، انچاس اعشاریہ پچاس فیصد ووٹ حاصل کرکے بھی صرف نصف فیصد ووٹ کی کمی کے سبب آج (28مئی) کو دوبارہ الیکشن کا لڑ رہے ہیں جبکہ اپنے ہاں آئین کے واضح تقاضے اور مطالبے کے باوجود اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے ہوتے ہوئے الیکشن سے بھاگنے کیلئے وہ سب کچھ کر گزر رہے ہیں جن کا کسی جمہوری و مہذب ملک میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، دو صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل کو نوے دن سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے لیکن سپریم کورٹ کے علاوہ کسی بھی مقتدر و طاقتور طبقے کے کان پر جوں تک بھی نہیں رینگتی کہ کہیں الیکشن کرانا بھی ذمے ہے۔پاکستان میں اس وقت زندگی کی کشتی جن حوادث سے دوچار ہونے کے خدشات ہیں ان کے (اللہ نہ کرے کہ وقوع پذیر ہوں) وقوع پذیر ہونے سے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں سب سے بڑا اور نازک مسئلہ معاشی بدحالی ہے، آئی ایم ایف کو ابھی بخوبی معلوم ہے کہ اس وقت وطن عزیز میں جو سیاسی افراتفری ہے ایسے میں اپنے (چین، سعودی و امارات) وغیرہ اعتبار و اعتماد نہیں کرتے کجا کہ وہ ادارہ جس کا کام یہی روپے کے بدلے روپے کمانا ہے اور ساتھ ہی اپنے روپے کے ذریعے دیگر کئی مقاصد کا حصول بھی ہوتا ہے کہاں اعتبار کرتا ہے کسی شاعر نے شاید ایسے ہی موقع کیلئے کہا تھا کہ
رفاقتوں کے نئے خواب خوشنما ہیں مگر
گزر چکا ہے تیرے اعتباد کا موسم
عدلیہ کا یہ حال ہے کہ حکومت وقت عدلیہ کو زچ کرنے پر تلی ہوئی ہے جبکہ عدلیہ آئین پر عمل درآمد کرانے پر مصر ۔ اگرچہ عدلیہ کے پاس اپنے احکامات کے نفاذ کیلئے اس وقت قوت نافذہ کا سخت فقدان ہے تاریخ پاکستان میں حکومت اور عدلیہ کا ایک دوسرے کے مقابل ہونا کوئی نئی بات نہیں لیکن آج کے عالمی حالات کے مدنظر بہت ہی حیران کن اور ملک و قوم کیلئے سخت نقصان دہ بات ہے،اگرچہ پاکستان میں سیاسی امور کبھی بھی مثال یا قابل رشک نہیں رہے تھے یہاں کی سیاست میں ہمارے طاقتوروں نے ہمیشہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر پس منظر اور پس پشت رہ کر اپنا فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے لیکن میموگٹ، ڈان لیکس اور کارگل کے معاملات سے معاملہ جی ایچ کیو پر حملے تک پہنچ گیا، یہ یقیناً پوری قوم کیلئے لمحات فکر ہیں لیکن سب سے زیادہ ذمہ داری سیاستدانوں اور طاقتوروں پر عائد ہوتی ہے، عمران خان سے بلنڈرز سرزد ہوئے ہیں لیکن پی ڈی ایم نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور ان سب پر مستزاد اس وقت طاقتور جس انداز میں فرنٹ فٹ پر آکر کھیل رہے ہیں یہ کسی طور پر بھی وطن عزیز کیلئے نیک شگون نہیں اس میں شک نہیں کہ اس وقت پی ڈی ایم کی پشت پر طاقتور اپنی پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسی شہہ پر وہ تحریک انصاف کو ختم کرنے کے درپے ہیں، ان کی پوری کوشش ہے کہ عمران خان کا پتہ صاف کرایا جائے لیکن کاش! کوئی محب قوم و ملک یہ سوچ سکے کہ افراد و شخصیات کا آنا جانا معمول کی بات ہے لیکن ملک و قوم نے باقی رہنا ہے لہٰذا سوچنا ہوگا کہ آج پی ڈی ایم، تحریک انصاف اور طاقتوروںکے درمیان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا جو کھیل زوروں پر ہے اس کے ملک و قوم کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوںگے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات