مشرقیات

ہائے !۔۔وہ مٹی کے برتن
کہاں گئے وہ مٹی کے برتن ؟۔۔جن کی سوندھی خوشبو اور اس میں پکے کھانے کا سواد آج بھی ذہنوں میں تازہ ہے۔۔وہ کورے مٹکے جو ہفتہ واری بازار میں خریدے جاتے تھے۔موسم گرما کے بازار میں۔۔جوش کی زبان میں۔۔مرچوں کی ڈھانس۔۔گڑ کی بھیلیوں کی پھیلی خوشبو۔۔خربوزوں کی مہک۔۔اور آموں کے پٹاروں سے اٹھتی مسحور کن خوشبو۔۔اسی بازار میں الگ تھلگ کمھار کی دکان لگتی تھی۔۔چھوٹے بڑے سائز کے مٹکے ،صراحیاں،ہانڈیاں ،کلسی نما برتن ،بڑے منہ کے ضخیم رنجن(بڑے سائز کے مٹی کے بنے ہوئے برتن )۔۔جنھیں کھلے میں رکھا جاتا یا نصف زمین میں گاڑ کر ان میں پانی بھرا جاتا۔۔چھوٹے چھوٹے پانی کے کوزے جن میں دعوت طعام میں پانی پیش کیا جاتا تو ٹھنڈے پانی کے ساتھ مٹی میں رچی بسی خوشبو دل و دماغ کو معطر کردیتی۔۔۔وہ بات آج کے کولر یا فریج کے پانی میں کہاں !!!تپائیوں پر چھوٹے بڑے مٹکے صحن میں سجے ہوتے جنھیں دھوپ کی سوزش سے بچانے کا خاص اہتمام کیا جاتا۔۔اب تو شہر کجا گاؤں میں بھی آنگن نہیں ملتے ۔
اسی کے ساتھ بوند بوند ٹپکنے والے رساؤ پر نظر ہوتی کہ یہی عمل پانی کو ٹھنڈا رکھتا۔۔رساؤ بند ہوتے ہی مٹکا بارھویں کھلاڑی کی صف میں ہوتا اور۔۔اناج و دالیں ذخیرہ کرنے کے کام آتا
لڑکے بالے سروں پر مٹکا رکھے ندی پار کنویں سے پانی بھر کر لاتے۔نو عمر لڑکیاں بغل میں مٹکی اڑسے ایک ہاتھ کے ہالے سے گرفت مضبوط کر دوسرے ہاتھ سے سر پر دھرے مٹکے کو سنبھالے مٹکتی ہوئی چلتیں۔۔یہ مناظر غروبِ آفتاب سے قبل دھندلکا پھیلنے تک روز کا معمول تھا۔ہانڈی چولھے پر چڑھتی۔۔اس میں پکے کھانے کی لذت اسٹیل کے برتنوں ، پریشر کوکراور گیس کے چولھوں پر پکے کھانوں میں مجھے اب تک نہیں آئی۔۔مٹی کی صحنک میں سالن پروسا جاتا جس کی مہک تقریب گاہ سے قریب آٹھ دس گھروں کے دائرے میں پہنچتی اور لوگ کشاں کشاں کھنچے چلے آتے۔شوربے میں ضم مانڈہ جو مزہ دے جاتا وہ شہروں میں دس اقسام کے کھانوں وہ بات کہاں !!ــاونچی نیچی سطح پر صحنک کو ٹھہرانے کے مختلف جتن کیے جاتے جو پل پل ہچکولے لیتی۔۔مختلف ٹیک لگا کر نیا پار لگادی جاتی۔مطمئن ، دنیا و مافیہا سے بے خبر۔۔نیم کے پیڑ کے نیچے لذت کآم ودہن۔۔نیم کے پتوں کی سرگم اور سنسناتی ہوا کے خوشگوار جھونکے ایک نئی دنیا کی سیر کراتے جو شاید سات ستارہ ہوٹل کے بے ہنگم موسیقی میں بھی وہ لطیف احساس نہ ہو !!۔اس مٹی کے برتن میں ڈوبی شکم سیری۔۔ہائے وہ بے فکری کے دن۔
آؤٹ ڈیٹیٹ ہانڈی میں دہی جماتی۔۔اور چھوٹے منہ کی بڑی مٹکی میں اچار ڈالا جاتا۔۔ہانڈی چولھے پر بھی چڑھتی ۔۔ہر گھر میں لازمی طور پر۔۔چھینکا ہوتا ،نعمت خانہ ہوتا ،سل بٹہ ،اوکھلی موسل، چھرا کندہ اور گھر کے کسی گوشے میں چکی ہوتی۔۔مگر تلاش بسیار کے باوجود نہ مٹی کے برتن ،مٹی کے دیے، چھوٹی چھوٹی سکوریاں، مٹی سے بنے کھلونے ملتے نہ ہی مٹی کے چولھے۔۔جو دھواں اگلتے تھے۔۔دھواں ہوئے۔۔ایک گمشدہ ورق۔۔شاید جدید نسل۔۔جسے نیکسٹ جنریشن کہا جاتا ہے۔۔اس سے واقف بھی نہ ہو۔۔!!

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی