تعلیم اور ہماری ترجیحات

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا نے تیزی کے ساتھ ترقی کے مراحل طے کیے ۔ امریکہ روس جاپان اور کئی دیگر ممالک نے دنیا میں زندگی کو آسان بنانے اور پیداوار بڑھانے کے نت نئے طریقے دریافت کیے ۔ یہ سب تعلیم اور تحقیق میں ترقی سے ممکن ہوا ۔دوسری جنگ عظیم کے بعد ترقی یافتہ ممالک نے سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دی اپنے جی ڈی پی میں تعلیم کے لیے زیادہ حصہ مختص کیا جبکہ ترقی پذیر ممالک نے تعلیم پر سب سے کم پیسے خرچ کیے ۔ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں تعلیم حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہے ۔ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام تعلیم پر اپنے جی ڈی پی کا دس فیصد خرچ کرتی ہیں ۔ گزشتہ دس برسوں میں بنگلہ دیش نے بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھا ہے اور تعلیم پر سرمایہ کاری کی ہے جس کے نتائج سامنے آئے ہیں اور بنگلہ دیش کی اکانومی اور معیشت میں سولہ گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے ۔تعلیم سکول کی سطح پر شعور فہم اور معاشرتی تمیز سکھانے کا ذریعہ ہے اور کالج یونیورسٹی سطح پر معیشت اور ملک کی استحکام کی ضامن ہے ۔ہماری آبادی اس وقت چوبیس کروڑ سے زائد ہے جبکہ ہمارے پاس ان چوبیس کروڑ لوگوں کو زندہ رکھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اس لیے ہم دوسروں سے قرض لے کر اپنا نظام چلا رہے ہیں ۔ہم اتنا قرض لے چکے ہیں جس کو اتارنے کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں یہاں تک حالات آگئے ہیں کہ قرض پر سودکی ادائیگی کے لیے ہمیں مزید قرض لینا پڑ رہا ہے ۔ اس کی ہزار وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ترجیحات کے تعین کا نہ ہونا اور قومی پالیسی کے بجائے شخصی مفادات کا تحفظ ہے ۔ہمارے جیسے حالات بہت سارے ممالک کے تھے ملائیشیا، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، برازیل اور ویت نام وغیرہ کے ان ممالک نے صرف ایک کام کیا کہ اپنے اپنے ممالک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی اور کچھ برسوں میں یہ ممالک نہ صرف مشکل حالات سے نکلے بلکہ آج کل یہاں کے باشندوں کی زندگی دن بدن بہتر ہورہی ہے ان کی معیشتیں مستحکم ہورہی ہیں اور ان کی پیداوری صلاحیت بڑھ رہی ہے ۔ان ممالک کی ترقی پر ورلڈ بنک کی جائزہ رپورٹیں موجود ہیں جن کو پڑھا جاسکتا ہے ۔
پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اس قدر مخدوش ہے کہ یہاں سرکاری سکولوں کے اساتذہ تک اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں نہیں پڑھاتے یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تین سو سے زائد بچوں نے میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانات میں سو فیصد نمبر لیے مگر ان بچوں کو سوائے رٹے کے کوئی اور شے نہیں آتی ، یہ طلبا نہ تو ریاضی کا عملی استعمال جانتے ہیں نہ انہیں جغرافیہ کا پتہ ہے اور نہ ہی عملی سائنس کی کچھ خبر ان کو ہے ۔یہ سارے بچے ترقی یافتہ دنیا کے دوسری کلاس کے بچوں کا امتحان پاس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نوجوان ملازمت کے لیے درخواست لکھنے کے لیے عرضی نویسوں کے سامنے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اس وقت تعلیم سے وابستہ فیصد اساتذہ کمپیوٹر کے استعمال سے واقف ہی نہیں ہیں ۔یہ چیلنج ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزرا سے کوئی سوال کرے کہ ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہے اور آخری بار کونسی پالیسی کب آئی اور پالیسی پر کیا عمل درآمد ہوا تو جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا ۔ ہمارے ملک میں تعلیم کی وزارت کوئی لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا ،ماضی میں میٹرک فیل اور ماضی قریب میں صرف میٹرک اور اس سے پہلے صرف ایف اے پاس ہمارے وزیر تعلیم رہے ۔جب ترجیحات کا یہ عالم ہوگا تو پھر ملک میں تعلیم کے ساتھ جو کھلواڑ ہورہا ہے وہ جائز ہے ۔ سیاسی حکومتیں ہزاروں کی تعداد میں سیاسی ورکروں کو استاد بھرتی کرتے ہیں اور اسمبلی کے ذریعہ قانون سازی سے ان کو مستقل کیا جاتا ہے یہ ہزاروں نااہل افراد لاکھوں کروڑوں بچوں کا مستقل مسلسل تیس پینتس برس تباہ کرتے ہیں ۔ دنیا میں سب سے قابل لوگ استاد بنتے ہیں اس لیے دنیا ترقی کررہی ہے ۔ ہمارے ملک میں سینکڑوں یونیورسٹیاں ہیں اور ہمارے صوبہ میں اکتیس یونیورسٹیاں سرکاری سطح پر بن چکی ہیں جن سے ہر برس فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔یہ لاکھوں فارغ التحصیل گریجویٹس عالمی مارکیٹ میں کسی کام کے نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ ان کے پاس کوئی عملی صلاحیت نہیں ہوتی ، جو کورسسز انہوں نے پڑھے ہیں وہ دنیا میں کب کے متروک ہوچکی ہیں ۔ہمارے ڈاکٹر ہمارے انجینئر ہمارے ماہرین زراعت کا عملی ٹسٹ لیں آپ کو احساس ہوجائے گا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں ۔ اس ملک کو چلانے والا کوئی بھی بندہ جو کام وہ کررہا ہے اس میں مہارت نہیں رکھتا بلکہ وہ ایسا امتحان پاس کرتا ہے جس کا اس کے حقیقی کام سے دور تک واسطہ نہیں ہوتا ۔ سی ایس ایس ، پی ایم ایس کا کورس اٹھا کر دیکھ لیں اس میں کہیں منیجمنٹ کامرس پلاننگ فنانس لیگل ڈرافٹنگ ریسکیومنیجمنت ڈیزاسٹر پریپڈنیس ایجوکیشن منیجمنٹ غرض بے شمار علوم ہیں جن کی مدد سے دنیا میں کام چلائے جاتے ہیں ۔مگر اللہ کی قدرت دیکھ لیں ،انڈوپاک ہسٹری ، انگریزی ، پشتو ،اردو، پولیٹیکل سائنس وغیرہ میں امتحان دے کر ہماری بیوروکریسی فنانس میں بجٹ بھی بناتی ہے پی اینڈ ڈی میں پلاننگ بھی کرتی ہے ،ہیلتھ اور ایجوکیشن ڈپارٹنمٹس کو بھی چلاتی ہے اور لا ڈپارٹمنٹ میں قانون سازی کو بھی دیکھتی ہے ۔اس پر اتنا تبصرہ کافی ہے کہ اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ ملک کی معاشی اور انتظامی حالت روز بروز مخدوش ہوتی جارہی ہے اور اس طبقے کی مراعات میں ہزار گنا اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ جس ملک کو سالانہ بجٹ خسارے سے نکلنے کے لیے کھربوں روپے کے قرض لینے پڑتے ہیں اس ملک کیلاکھوں ملازمین پرتعیش گاڑیوں میں پھر رہے ہوتے ہیں ۔ امریکہ جیسے بڑے اور ترقی یافتہ ملک میں پولیس کے علاوہ کسی کے پاس سرکاری گاڑی نہیں ہے اور صرف پشاور شہر میں رجسٹرڈسرکاری گاڑیو ں کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے اس لیے کہ اے نمبر ڈبل اے نمبر اے بی نمبر یعنی ہر دس ہزار پر نمبر بدلتا ہے کل سڑک پر دوڑتے ان گاڑیوں کو دیکھ لیں اور پھر ان کی کارکردگی کو دیکھ لیں ۔ آپ کو اپنے ملک کی اصلی حالت کا پتہ چل جائے گا ۔
ہمارے ملک میں ٹیکنکل تعلیم یعنی ہنر سکھانے کی طرف حکومت کا رجحان نہیں ہے جبکہ اب دنیا تھیورٹیکل تعلیم سے عملی تعلیم کی طرف منتقل ہوچکی ہے ۔ہمیں زیادہ تعلیم یافتہ لوگوں کی بنسبت زیادہ عملی صلاحیتوں والے افراد کی ضرورت ہے ۔یہ عملی صلاحیتیں چھوٹے چھوٹے عملی سکولوں میں سکھائی جاسکتی ہیں ، امریکہ میں ان اداروں کو کمیونٹی کالجز کہا جاتا ہے جہاں جس ہنر کی ضرورت ہو وہ سکھائی جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے صوبہ میں ہزاروں مقامات پر معدنیات کی تلاش جاری ہے اور بہت سارے جگہوں سے معدنیات نکالی بھی جارہی ہیں مگر معدنیات سے متعلقہ دو سو کے قریب عملی ہنر ہیں جنہیں سیکھے بغیر آپ یہ کام نہیں کرسکتے مگر ایک بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو یہ ہنر سکھا سکے۔ اس طرح ہر شعبہ میں صرف وہ لوگ کام کرسکتے ہیں جنہیں اس کام کا ہنر آتا ہو ۔اس طرف حکومت اور ارباب اختیار کی نظر ہی نہیں جاتی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنے وسائل مسائل اور امکانات کا عملی جائزہ ہی نہیں لیا اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی ماسٹر پلان ، سٹریٹیجیک پلان یا پھر بزنس پلان بنایا ، ہم آج تک جو کام ہم کررہے ہیں اسکا سورٹ انیلیسسز ہی نہیں کیا پسٹ اینڈ پسٹل انیلیسز تو دور کی بات یہ کام منیجمنٹ سائنس کے لوگ کرسکتے ہیں تھوڑی سی محنت کرکے ایک سٹرٹیجیک یا بزنس پلان بنایا جاسکتا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ان مشکل حالات سے نکلا جاسکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی