ہے زندگی کا مقصد اووروں کے کام آنا

دنیا کا قانون ہے کہ ہر شخص جب ہوش سنبھالتا ہے تو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے اور اس کے لئے بھرپور محنت کرتاہے، بہت کم لوگ ہوتے ہیںجو امیر ہونے کی خواہش رکھنے کے باوجودانسانیت کی خدمت کا جزبہ رکھتے ہیں اور پھر اس کے لئے اپنی زندگی کا مقصد ہی تبدیل کردیتے ہیں۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی اس طرح کے لوگ گزرے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے شروع کریں، عبدالستار ایدھی ، انصاربرنی ، عمران خان اور ڈاکٹرعبدالقدیرخان تک آئیںاورپھر اسی طرح آگے بھی۔ ان سب لوگوں میں ایک بات مشترک تھی کہ ان میں ملک وقوم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وطن عزیز میں جو بڑا کام ہوااسی طرح کے لوگوں نے کیاجن لوگوں نے اپنی عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہا اورملک وقوم کی خدمت کے لئے ایک نسبتاً کٹھن راستہ اختیار کیایہی نہیں اس رستہ میں مشکلوںکاانہوں نے بڑی جرأت و بہادری سے سامنا کیا اور جس عظیم مقصد کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ لٹایا اسے پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔ پاکستان جیسے ملک جس کے وجود میںآنے سے آج تک کچھ من چلے، خدائی خدمت گار اور سر پھروں کاکردارہمیشہ رہاہے ، ڈاکٹر قدیر خان ہی کو لیں کہ اگر وہ چاہتے تو دنیاکے بہترین ملک میںاپنی غیر ملکی گوری بیگم کے ساتھ بڑے عیش و آرام کی زندگی گزارسکتے تھے انہیں پوری دنیا میں نام وشہرت بھی مل جاتی مگر انہوں نے اپنے وطن کے لئے کچھ کرنے کے لئے ان سب آسائشوں اور شہرت کو لات مارکر پاکستان کو ایک انہونی کا خواب دکھایااور پھر اسے پائیہ تکمیل تک پہنچایا۔جی ہاں ڈاکٹر قدیر خان کی بات پر 70ء کی دھائی میں کسی کو یقین نہیں تھا کہ ایک غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والا ملک ایٹمی طاقت ور ملک بنایاجاسکتا ہے ۔جس ملک میں ایک موٹر سائیکل تک بنانے کی فیکٹری نہیں ہے وہ کیسے جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوسکتاہے ۔پھر صرف تین دھائیوں کے بعد پاکستان نے دنیا کو کر دکھایا اس موقع پرجہاں ساراپاکستان جھوم اُٹھاوہاں اس سے بھی زیادہ خوشی اسلامی دنیا کو ہوئی۔لیکن یہ سب کسی ایک فرد کے عزم اور حوصلہ کی بات تھی پھر پوری قوم نے اس کا ساتھ دیا میں مانتا ہوں کہ یہ ایک فردِ واحد کی بدولت نہیں ہوابلکہ کئی اور ذمہ دارلوگوں نے اس ناممکن کو ممکن کرنے میں دامے درمے سخنے مدد کی۔
اس طرح کے لوگ پورے وطن میں موجود ہیں کچھ کاکام بہت بڑا ہے اور کچھ نے کسی ایک شعبہ کو لے کر کام کیا جن میںکرکٹر عمران خان کا کینسر ہسپتال، اس زمانہ میں پاکستان جیسے ملک میں غریب لوگوں کے علاج کا ہسپتال اوروہ بھی جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ۔ کرکٹر شاہد آفریدی نے اپنے علاقہ میں ہسپتال بنوایا، مشہور گلوکار ابراالحق نے سہارا فارلائف ٹرسٹ اوراپنے علاقہ میں ہسپتال بنایا۔اس طرح کئی اورلوگ پاکستان کے مختلف حصوںمیںاپنے اپنے خطے اور علاقہ کو جدید دنیا کے قابل بنانے کے لئے کوشاں ہیں انہیں میں ایک نام وطن عزیز کے نامور ہارٹ سرجن ‘ ستارہ امتیازپروفیسر ڈاکٹر محمد رحمن کا بھی ہے۔انہوں نے پشاور کے نواحی علاقے بڈھنی میں آنکھ کھولی اور تعلیم حاصل کرنے کراچی اور پھر لندن تک گیا اعلیٰ تعلیم حاصل کرلی تو کئی دوستوں نے مشورہ دیا کہ اس ٹیکنالوجی کی پاکستان میں وہ قدر نہیں ہوگی جو آپ کو برطانیہ میں ہے ۔لیکن اس من چلے نے اپنے وطن کا رخ کیا یوں کراچی میں سرکاری اور نجی سطح پر لوگوں کے دلوں کاآپریشن اپنے ہی وطن میں ہونے لگا۔ اس سے پہلے لوگ زرِمبادلہ خرچ کرکے بیرون ملک جاتے اور دل کاپیچیدہ آپریشن کرواتے یوں عمر بھر کی جمع پونجی خرچ ہوجاتاتھا۔اس کے علاوہ پختون صوبہ سے لوگ کراچی جاتے آپریشن پر بھاری رقم خرچ کرتے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ پورے خاندان کو دربدر پھرنے اور دیار غیر میں رہنے کی تکالیف اُٹھانی پڑتی ۔چند ایک لوگوں کے لئے توانہوں نے اپنی ذاتی رہائش گاہ کھول دی کہ ا س کے صوبہ بھرسے جو کوئی بھی آئے اسے مہنگے اپارٹمنٹ اور ہوٹلوں میں رہنے کی بجائے ان کا گھر میسر آئے۔لیکن اب بھی ان کے دل میں ایک کسک سی تھی کہ کیسے ہوکہ میں اپنے آبائی گائوں’ اپنے علاقہ اور اپنی مٹی میں جائوں اور نہ صرف صحت کی بہترین سہولیات دوں بلکہ وہیںپختونوںکی سرزمین پر انہیں اعلیٰ تعلیم بھی دی جائے تاکہ ہم بھی قوموں کی دوڑ میں اپنا مقام حاصل کرسکیں۔
پشاور کے دورافتادہ اور صحت کے معاملے میں بالکل نابلد علاقہ میں نہ صرف جدید طرز کا ہسپتال بلکہ بین الاقوامی معیار کی طبی درسگاہ کا قیام نوے کی دھائی میں دیوانے کا خواب لگ رہا تھا اور اکثر ایسا ہوتا رحمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد بھی کئی پروفیسرز اور سپیشلسٹ ڈاکٹر مشورہ دیتے کہ ڈاکٹر رحمن صاحب ابھی بھی وقت ہے یہ منصوبہ ترک کردیں یہ عوام سمجھنے والے نہیں ہیں اور تمہارے سارے انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کو تہس نہس کرکے رکھ دیں گے پختون عوام نے پہلے بھی صوبہ کے تین بڑے ہسپتالوں کا وہ حشر کیا ہے کہ بس سٹاپ اور ریلوے سٹیشن اس سے کئی گنا اچھے ہیں۔لیکن اس عظیم مشن کے دھنی نے ایک نہ سنی ہسپتال کو چلانے کے لئے عہد لے کر آگے چلا۔ پھر خداخدا کرکے وہ دن آیا کہ خواب سے حقیقت کا روپ دھارلیا ۔ اس طرح پشاور میں ایک اعلیٰ معیار کا طبی مرکز نہ صرف شہر بلکہ صوبہ بھر کے لوگوں کے توجہ کا مرکز بنا سب سے پہلے جو لوگ دل کے مہنگے آپریشن اور تھکا دینے والے سفر کے لئے کراچی جایا کرتے تھے اور وہاں جانا اور مریض کے ساتھ رہنا بھی آپریشن جتنے خرچ سے کم نہ تھا ۔ ان کے لئے ایک نعمت سے کم نہ تھا کہ انہیں اپنے ہی وطن میں دل کے آپریشن کی سہولت میسر آئی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان کے لوحقین و تیمارداران کو بھی قدرے سکون اور راحت ملی کہ وہ جب چاہیں آجاسکتے ہیں۔لوگوں کے جوق در جوق ہسپتال میں آنے اور وہاں ڈیرے جمالینے جیسے فعل کو بھلانا۔ہسپتال کو فٹ پاتھ، کوڑادان اور بسوں او رٹرینوں کے اڑدوں کی طرح گندہ اور غلیظ نہ کرنے کے لئے عملہ کے ساتھ بھر پور تعاون کرنے سے یہ ممکن ہوا کہ پشاور اور صوبہ کے روائیتی گندے ہسپتالوں کا ریکارڈ توڑدیا ۔
آج کی سائنس یہ کہتی ہے کہ مرض کے علاج سے زیادہ اس کے پھیلنے پر توجہ دی جائے ماحول جتنا صاف ستھرا اور صحت مند ہوگابیماریوں کی روک تھام اتنے اچھے طریقے سے ہوسکتی ہے اپنے رہنے سہنے اور اردگرد کے ماحول کو صاف وشفاف رکھنا تو ضروری ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جہاں ان منحوس بیماریوں کا قلع قمع کیا جارہا ہے ۔اس مقصد کی تکمیل کے لئے اس نجی ادارہ نے اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔یہاں نرسوںاور پیرامیڈیکل سٹاف کوجدیدمشینوںپرکہنہ مشق اساتذہ نے پوری طرح تربیت یافتہ کیا اور پھر یہ کھیپ یہاں سے نکل کر پشاور کے بڑے سرکاری و غیر سرکاری ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ پورے صوبہ میں معیاری طبی سہولیات فراہم کرنے میں آج بھی اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ یہاں کے تربیت یافتہ لوگوں نے اب صوبہ کے تمام سرکاری ہسپتالوں کو بھی اعلیٰ معیارکی سہولیات فراہم کرنے میں اپنا کردار اداکیا، آج ہم دیکھتے ہیں کہ صوبہ میں سرکاری ہسپتالوں میں بھی اسی طرح کی جدید سہولیات میسر ہیں۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو