میثاق جمہوریت اور ڈیلیں

آئی ایم ایف کے ساتھ طویل ملاقاتوں کے بعد گزشتہ روز اچھی خبر مل ہی گئی۔ بظاہر پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا، انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ نے اگلے نو ماہ تک قرضہ دینے کی اصولی حامی بھر لی۔ اس پر وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے کی خوشی میں ایک پریس کانفرنس میں اس بات کی تصدیق کردی ہے جیسے ہی اس حکومت کی مد ت پوری ہوگی وہ گھر چلے جائیں گے پھر الیکشن کمیشن کی مرضی ہے کہ کب وفاق سمیت چاروں صوبوں میں نئے انتخابات کا اعلان کرے۔ شہباز شریف کی حکومت میں دیگر اتحادی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور یقینا ان کے سااتھ بھی شہباز شریف کی مفاہمت (ڈیل ) ہوچکی ہوگی۔ دبئی اور لندن میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں کچھ نہ کچھ تو ڈیل ہوچکی ہے۔ چاہے وہ سیٹ ایڈجسمنٹ ہو یا کسی اور قسم کی سیاسی مفاہمت۔ کیونکہ مفاہمت کے بادشاہ ، پاکستان کی سیاسی گٹھ جوڑ کے ماہر اور انتہائی زیرک سیاست دان پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری بھی بطور خاص شریک ہوئے۔ کیونکہ آصف علی زرداری گزشتہ دہائی میں میثاق جمہوریت کے زریعے سیاست میں ایسے ان ہوئے کہ صدر پاکستان تک بن گئے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پورے پانچ سال حکومت کرکے ریکارڈ بناڈالا، وہ الگ بات کہ وزیر اعظم بدلتے رہے یوں ہم نے اس دور میں سنا کہ ایک زرداری سب پر بھاری۔ پاکستان میں سیاست دانوں کی قلابازیاں ، ووٹر سے چالبازیاں اور سیاسی کرشمے دکھانا تو مشہور تھا ہی مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب بھی سیاست دان نے پایا، بادشاہ گر بھی یہی سیاست دان کہلاتے ہیں اسی سلسلے کی کڑی ایک ٹرم استعمال ہوا کرے گی کہ کون کتنا بڑا ڈیل ساز ہے۔ سیاست داں تو اپنی پارٹی کارکنوں کی صف بندی کاکسی فوجی کی طرح گر نہیں جانتے مگرایک فوجی سیاستدانوں سے کہیں زیادہ کرشمہ ساز ہوسکتا ہے، اس کا مظاہر وطن عزیز میں بارہاہم دیکھ چکے ہیں ، اسی لئے تو پاکستان پر حکومت سیاست دانوں سے زیادہ فوجییوں نے کی جس کی وجہ سے فوجیوں کا مقابلہ سیاست دانوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ اب اگر تقابل کریں گے تو انہی فوجی حکمرانوں کا آپس میں کہ ان میں سے کون زیادہ سیاسی اتار چڑھائو کا ماہر وہنر مند تھا ، فیلڈ مارشل ایوب خان سے شروع کریں ،جنرل یحییٰ خان اور پھرجنرل ضیاء الحق تک تجزیہ کرتے آتے ہیں تو ان سب کے ہاں یہ بات مشترک تھی کہ انہوں نے کسی ایک سیاسی جماعت کو اپنا پٹھو بنائے رکھا اور باقی جماعتیں اور بالخصوص دینی جماعتیں ان کے زیر عتاب رہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف کے ہاں ایک عجیب و غریب سیاست نظر آتی ہے اور یہ سیاست نوابزادہ نصراﷲخان کے سیاست کے بالکل الٹ ہے وہاں جتنے ہارے ہوئے سیاست دان تھے وہ اپوزیشن میں نوابزادہ کے گرد جمع رہتے تھے ۔جبکہ جنرل پرویز مشرف کے پاس سارے جیتے ہوئے سیاست داں ہروقت ان کی آشیر باد کے منتظر رہتے ہیں کہ اب ہے کہ جب ہے جنرل صاحب ہماری سیاست کو بھی دوام بخشیں گے،جس کے وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت کے مزے لیں گے۔جنرل مشرف ایک فوجی ہونے سے زیادہ سلجھے ہوئے سیاست دان ماننے جاتے رہے کہ وہ اپنے حواریوں کی ہربات من و عن نہیں مان لیتے بلکہ خوب غور و غوض کے بعد کسی بات کی حامی بھر تے ہیں ہاں چند ایک مقامات پر ان سے فاش غلطیاں بھی ہوئی ہیں ان میں لال مسجد اور چیف جسٹس کا کیس کو ہینڈل کرنا بھی شامل ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی سیاست سے اندرون ملک یا بیرون ملک کسی قسم کا فرق پڑا ۔ ان ڈیلوں کو بڑی خوش اسلوبی سے چلاتے رہے پھر انہوں نے مسلم لیگ کے اندرسابق گورنر میاں اظہر کو کھڈے لائن لگا کر چوہدری برادران سے ڈیل کرلی یوں انہیں ایک سیاسی پارٹی کا کندھا بھی مل گیا۔ان جنرل کے ہاں ڈیل کے اوپر ڈیل کرنا بھی کافی مہارت سے پایا جاتا ہے چوہدری برادران کو صوبے تک محدود کرکے جمالی کو وزیر اعظم بنایامگر توقعات پوری نہ ہونے پر ایک ٹیکنوکریٹ کو سیاسی لبادہ اُڑواکر وزیر اعظم بنائے رکھا کسی نے چوں چراں تک نہ کی۔ متحدہ قومی موئومنٹ ( ایم کیو ایم) کے ساتھ ان کی ڈیل بھی کافی کامیاب رہی انہیں سندھ کے گورنر تک کا عہدہ دے دیا اور اپنا غلام بنالیا۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ڈیل” ہم خرمہ ہم ثواب” کی طرح رہی کہ اسلام آباد میں روشن خیالی بھی پنپتی رہے، صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) میں بلاشرکت غیرے اور بلوچستان میں روشن خیالوں کے ساتھ مل کر دینی جماعتوں کا اتحاد حکومت پر براجمان رہا۔ اس دوران شریعت بل بھی آتا جاتا رہے۔
ڈیلیں اکیلے پرویز مشرف ہی نہیں کرتارہا بلکہ اس وقت مولانا فضل الرحمن کی ڈیل ایک کرشمہ سے کم نہیں تھی کہ ان کا سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) ہمہ وقت میں حکومت میں بھی تھے اورسرکاری اپوزیشن کا کردار بھی بخوبی ادا کرتارہاتاکہ جنرل کے لئے کوئی حقیقی اپوزیشن بن کر ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے یہ نورا کشتی بھی پونے پانچ سال پورے شان و شوکت کے ساتھ چلتی رہی۔ یہ ”جنرل ڈیل” کی مہارت وسیاسی بصیرت ہے کہ وہ اتنی ساری ڈیلوں کے ساتھ کیسے آٹھ برس تک حکومت کرکے بیرون ملک چلے گئے اور پھر وہیں وفات پاگئے۔ اب اگر حقیقی سیاست دانوں کی بات کریں تو آصف علی زرداری ہی ہیں کہ گرگ باراں دیدہ کے مصداق سیاست دانوں کو آنے والے حالات سے پوری جان کاری دے کر ڈیل کرتے ہیں۔وہ ایک منجھے ہوئے پتنگ باز کی طرح اپنی پتنگ بھی اڑا تے رہتے ہیں اور کسی بھی ڈور کو الجھنے بھی نہیں دیتے۔ کیونکہ ان کے اتحاد میں ماضی کی سخت ترین مخالف ایک ہی پیج پر نظر آتے ہیں۔ لندن میں گزشتہ دنوں کچھ ملاقاتیں ہوئیں اب دیکھتے ہیں کہ مفاہمت کے بادشاہ کی نئی ڈیل کس کس کے ساتھ ہوتی ہے اور یہ ڈیل کتنی دیر تک رہتی ہے۔اس بات کا عندیہ تو بلاول بھٹو سوات میں اپنے ایک جلسہ میں دے چکے ہیں کہ کراچی کے مئیر کے انتخاب میں جیسے پیپلز پارٹی نے مئیر شپ جیت لی ہے کچھ اسی طرح آنے والی عام انتخابات میں نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی اکثریت نشستیں جیتے گی بلکہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بھی منتخب ہوجائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ یہ لندن اور دبئی میں ہونے والی ڈیلوں میں کچھ یہ ہی طے پایا ہوکیونکہ تحریک انصاف کی حکومت ختم کرنے کے بعد مسلم لیگ کو حکومت دینا بھی ڈیل کا حصہ تھا تاکہ مسلم لیگ والے ہر ہر لیڈر کے خلاف تمام کے تمام مقدمات سے باعزت بری ہوسکیں اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ میاں نواز شریف بھی نہ صرف پاکستان آسکیں بلکہ سیاست میں حصہ بھی لے سکیں۔
ان ڈیلوں کے نتیجے میں عندیہ یہ بھی ہے کہ آصف علی زرداری پھر سے صدر پاکستان بن جائیں۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان فضل الرحمن گروپ ان تمام ڈیلوں کا حصہ بھی ہیں اور ہر قسم کے پھل کے بھی حقدار ہیں شہباز حکومت میں بھی مولانا فضل الرحمن کے بھائی بیٹے اور دیگر رشتہ دار وزارتوں اور گورنری کے مزے لوٹ رہے ہیں اوریقینا آئندہ انہیں بھی وفاق میں بھی ان کا حصہ بقدر جثہ ملے گااور دوصوبوں ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی حکومت میں پوراپورا حصہ دیا جائے گا۔ متحدہ قومی موئومنٹ پہلے ہی ان ڈیلوں کا حصہ ہے وہ ہمیشہ کی طرح حکومت کا حصہ بھی ہوں گے اور سندھ میں اپوزیشن کا کردار بھی نبھاتے رہیں گے۔ اسی طرح دیگر اتحادیوں کو بھی اپناپوراپورا حصہ ملے گاچاہے وہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں بھی ہوسکتاہے اور اسمبلیوں میں پہنچنے کی صورت میں وزارت ملنے کے امکانات بھی ہیں۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں