سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے

محاورہ تو یہ ہے کہ بڑے میاں توبڑے میاں ‘ چھوٹے میاں سبحان اللہ ‘ اور تازہ خبروں کے حوالے سے چھوٹے میاں واقعی سبحان اللہ ہی ثابت ہوئے ‘ کیونکہ وہ جودودیگر محاورے ہیں یعنی دودھ کا جلا ہوا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے یا پھر سانپ کا ڈسا ہوا رسی دیکھ کر بھی ڈرجاتا ہے تو ان تمام محاوروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے چھوٹے میاں صاحب نے بطور وزیر اعظم اپنی جوسال بھر میں مجموعی طورپر 24 لاکھ61 ہزار روپے بنتی تھی قومی خزانے کو واپس کر دی ‘ حالانکہ اس سے پہلے بڑے میاں صاحب نے اپنے بیٹے سے تنخواہ وصول نہ کرنے کی جو”غلطی” کی تھی اس کا خمیازہ انہیں وزارت عظمیٰ سے برطرف اور تاحیات نااہلی کی صورت میں بھگتنا پڑی تھی اور جس کے لئے اس وقت کی عدلیہ نے کسی”سیاہ رو” ڈکشنری یعنی بلیک لا ڈکشنری کے اندر سے ایسی قانونی دفعات کو تلاش کرناپڑاتھا جس کے وجود پر ہی سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے ایک کالم میں سوال اٹھا دیئے تھے اور دیکھا جائے تو اب خودتحریک انصاف کے سینئر رہنما اور ماہر قانون حامد خان نے بھی گزشتہ روز ایک بیان میں کہا ہے کہ نواز شریف کو نااہل کرنے کا فیصلہ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی ہوچکا تھا اور عدلیہ کو صرف استعمال کیاگیا حامد خان کے اس بیان میں اگرچہ کوئی نئی بات نہیں یعنی بقول سیف الدین سیف
سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیامیں کوئی بات نئی بات نہیں
کیونکہ یہ بات تو انہی دنوں وائرل ہوچکی تھی کہ نواز شریف کے حوالے سے فیصلے کی فائلیں اسلام آباد کے ایک پنچ ستاری ہوٹل میں لکھنے اور فائنل ہونے کے بعد صرف اعلان کرنے کے لئے عدالت میں لائے جاتے تھے بہرحال اب تو انگریزی مقولے کے مطابق”فرام دی ہارسز مائوتھ” نے اس کی تصدیق پر مہر ثبت کر دی ہے کہ تحریک انصاف کے اپنے ہی ایک سینئر رہنما نے گواہی دے کر ان دنوں لفظ”مبینہ کے سابقہ کے ساتھ سامنے آنے والی خبروں کو سچ ثابت کر دیا ہے ۔ میاں صاحب کو ان دنوں کی عدلیہ نے شیر اور لیلہ (بکری کا بچہ) کی کہانی کو دوہراتے ہوئے ان کی کوئی تاویل نہیں مانی اور بلیک لاء ڈکشنری سے ”شرمناک” قسم کے دلائل کے سہارے ان کی وزارت عظمیٰ ہڑپ کر لی ‘ اس کے بعد بکرے کی ماں کب تک خیر منا سکتی تھی کہ جب جواز ہی گھڑا گھڑایا مل جائے اور جس سے ان لوگوں کے مقاصد کی تکمیل بھی ہوتی ہو جن کے نزدیک بڑے میاں صاحب ”راندہ درگاہ”بن چکے تھے تو پھر خواہ ان کے فیصلوں سے اقتصادی طور پر اڑان بھرتا ہوا ملک واپس ترقی معکوس کا شکارہو کر پاتال میں اتر جائے یاپھر دیگر مسائل کا شکار ہوجائے ‘ ان کی بلا سے
اپنی بلا سے بوم بسے یا ہما رہے
خیر بات ہو رہی تھی چھوٹے میاں صاحب کی اس حکمت عملی کی کہ انہوں نے پورے سال کی بطور وزیر اعظم اپنی تنخواہ وصول نہیں کی ‘ جہاں تک تنخواہ کی وصولی کا تعلق ہے تو ایسا بڑے میاں صاحب نے بھی کیا تھا ‘ البتہ انہوں نے ”بلیک لاء ڈکشنری” کے مطابق اسے انتخابات کے موقع پر الیکشن کمیشن کے متعلقہ فارم میں ڈکلیئر نہیں کیا تھا ‘ اب جو خبر سامنے آئی ہے تو اس کی دو سرخیوں میں بھی کچھ تضاد ہے یعنی ایک سرخی تو یہ ہے کہ شہباز شریف نے بطور وزیر اعظم تنخواہ وصول نہیں کی اور ذیلی سرخی میں یہ کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے پچھلے سال کی مجموعی تنخواہ 24لاکھ 61 ہزار خزانے کو واپس کر دی۔ان دونوں سرخیوں میں ”وصول نہ کرنا” اور مجموعی تنخواہ ”واپس کرنا” میں تضاد نظر آتا ہے یعنی ایک سرخی تو میاں نواز شریف والے مقدمے کے عین مطابق ہے کہ تنخواہ وصول نہیں کی ‘ جبکہ ذیلی سرخی عدلیہ کے اعتراض کے مطابق تو خیر نہیں بلکہ اس کی واپسی کے حوالے سے ہے ‘ اب اصل صورتحال کیا ہے؟ اس کی وضاحت تب سامنے آئے گی جب آنے والے انتخابات میں چھوٹے میاں صاحب الیکشن فارم بھریں گے ‘ اور اگر ان سے تھوڑی سی بھی بھول چوک ہوگئی تو ان کے خلاف بھی بلیک لاء ڈکشنری حرکت میں آسکتی ہے ‘ اور اگر بلیک لاء ڈکشنری کی”بدنامی”کی وجہ سے اس کے استعمال سے گریزکی کوئی صورت نکلے توجس طرح فٹ بال ‘ ہاکی اور دیگر کھیلوں کے میدان میں یلو کارڈ اورریڈ کارڈکا استعمال کرتے ہوئے کھلاڑیوں کووارننگ دی جاتی ہے (یلو کارڈ) یا پھر ریڈ کارڈ دکھا کر میدان سے باہر کر دیا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ چھوٹے میاں صاحب کو بھی وقتی طور پر سیاست کے میدان سے باہر نکالنے کے لئے کسی یلو یاریڈ لاء ڈکشنریوں کوڈھونڈ کر ان سے ”بھرپور استفادہ” کیا جائے البتہ اتنا ضرور ہے کہ یلو کارڈ تو صرف وارننگ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ریڈ کارڈ دکھا کر کھلاڑی کوکچھ دیر کے لئے یا پھر میچ کے بقیہ وقت کے لئے باہر کردیا جاتا ہے لیکن مستقل طور پر کھیل کے میدان سے نہیں نکالا جاسکتا ‘ اس کے برعکس کرکٹ کے کھیل میں وارننگ کے ساتھ نقد جرمانہ اور ایک سے لے کر دوتین میچوں کی پابندی عاید کی جاتی ہے ‘ اس لئے چھوٹے میاں صاحب کوایک گانے کے نامکمل مصرعے کی مانند یہ مشورہ ضرور دیا جاسکتا ہے یعنی ”ہوشیار یار جانی” اس کے بعد کے الفاظ گانے کی حد تک سنے توجا سکتے ہیں مگر موجودہ صورتحال میں استعمال سے پرہیز ہی بہتر ہے ۔ویسے گزشتہ دنوں قانون میں جو ترمیم کی گئی اور جو قائم مقام صدر(سینیٹ کے چیئرمین) کے دستخطوں سے اب وہ نافذ العمل ہی ہوچکا ہے تو اس کے تحت نہ بڑے میاں صاحب اور نہ ہی جہانگیر ترین کی تاعمرنااہلی باقی رہگئی ہے اور اب دونوں آنے والے انتخابات میں آئینی اور قانونی طور پرحصہ لے سکتے ہیں بشرطیکہ ان پر کسی اور مقدمے میں کوئی پابندی یا قدغن نہ ہو’ کہ یہ بھی قانونی ضرورتیں ہوتی ہیں کہ کسی مقدمے میں ملزم کوبے گناہ قراردینے کے بعد اس کی رہائی کا حکم صادر کرتے ہوئے فاضل عدالت ان الفاظ میں وضاحت کرتی ہے کہ ملزم کوباعزت بری کیا جاتا ہے اور اس کی رہائی کاحکم صادر کرتی ہے تاہم اگروہ کسی اور مقدمے میں ملوث ہوتو اس کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے ۔ تو دیکھتے ہیں کہ جن دوسرے مقدمات میں بڑے میاں صاحب عدالت یا عدالتوں کو مطلوب(اگر) ہیں تو ان کے تقاضے کیا ہوں گے ۔اگرچہ بڑے میاں صاحب کے حوالے سے سابقہ فیصلوں پر اظہر اریب (جس کی تصدیق حامد خان نے بھی کی ہے) کہا جا سکتا ہے کہ
ملے تھے پہلے سے لکھے ہوئے عدالت کو
وہ فیصلے جو ہمیں بعد میں سنائے گئے

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی