یہ سوچ لیجئے پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب غریب غرباء ٹماٹر کی چٹنی بناکر اس کے ساتھ روٹی کھاکر اللہ کا شکر ادا کرلیتے تھے کچھ لوگ پیاز کے ساتھ روکھی سوکھی کھاکر گزارہ کرلیتے تھے۔ سستا دور تھا اور محنت کش ایسی ہی چیزوں پر وقت گزار لیا کرتے تھے مگر جب سے دنیا میں اقتصادی سختیاں آئی ہیں، اب ٹماٹر اور پیاز کے ساتھ ایک وقت کی روٹی کھانا بھی ناممکنات کے دائرے میں داخل ہوچکا ہے یعنی اب کسی بھی سبزی کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈر لگتا ہے اور تو اور وہ جو کسی زمانے میں شلجم یا شلغم (جسے پشتو اور ہندکو میں ٹھپر اور پنجابی میں گونگلو کہتے ہیں) کو انتہا درجے کی سستی سبزی ہونے کے حوالے سے ”حقیر” سمجھا جاتا تھا وہ بھی اب دو سو تک کے ہندسے کو چھو کر ڈیڑھ سو سے بھی بڑی مشکل سے نیچے اتر کر سو روپے کلو بک رہے ہیں، اور وہ جو محاورةً اردو زبان میں ایک محاورہ مشہور ہے ”گونگلوئوں سے گرد جھاڑنا” تو یار لوگ اب اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے اور ان پر لگی ہوئی مٹی سمیت فروخت کر دیتے ہیں یہاں تک کہ کوئی بھی سبزی دیکھیں تو اس کے ریٹ ایک مشہور برانڈ کے جوتے بنانے والی کمپنی کے ریٹس کی طرح تقریباً فکس ہوچکے ہیں البتہ پیاز اور ٹماٹر کے نرخوں میں اتار چڑھائو کے حوالے سے ریس لگی ہوئی ہے اور ابھی عید سے پہلے ان دونوں کے نرخ ایک بار پھر آسمان کو چھونے کی کوشش کر رہے تھے کیونکہ قربانی کے گوشت کے ساتھ پیاز اور ٹماٹر کا استعمال نسبتاً زیادہ ہوجاتاہے تاہم اب صورتحال ذرا تبدیل ہوچکی ہے اور پیاز فی کلو سو روپے جبکہ ٹماٹر نیچے آتے آتے پرچون میں 50 روپے اور تھوک کے حساب سے 49 روپے کلو فروخت ہورہے ہیں ۔ ہاں مگر اب ہماری نسبت بھارت میں ٹماٹر خاصے مہنگے ہوچکے ہیں جو کبھی بھارت میں ٹماٹر اس قدر سستے ہوتے تھے کہ کسانوں نے اپنی فصل اخراجات بھی پورے نہ ہوسکنے کی وجہ سے غصے میں آکر منڈیوں کے باہر ٹماٹر کی فصلوں کو زمین پر گراکر کچل ڈالا تھا اس نے ہمیں ایک مغربی ملک (غالباً سپین) میں ہونے والے سالانہ ٹماٹر میلے (Tomato Fastival) کی یاد دلا دی تھی جس کا ذکر آگے چل کر آئے گا۔ بھارتی کسانوں کو اس بات پر غصہ آیا تھا کہ جتنے اخراجات انہوں نے ٹماٹروں کی بوائی، پرداخت اور پھر فضل حاصل کرکے بھاری کرائے ادا کرکے منڈیوں تک پہنچانے پر کئے تھے انسانی محنت اس کے علاو ہ تھی مگر جب فصل کاٹی گئی تو منڈیوں میں مندے کا بازار چل رہاتھا اور ٹماٹر اتنے سستے بک رہے تھے کہ ان کے اپنے اخراجات بھی پورے نہیں ہورہے تھے جبکہ ٹماٹر خریدنے والا بھی کوئی نہیں تھا اسی بات پر طیش میں آکر انہوں نے ٹماٹروں کو سڑکوں پر گراکران پر گاڑیاں چڑھا دی تھی دوسری بار بھارتی کسانوں نے ٹماٹر اس کے باوجود کہ نرخ اچھے تھے مگر پاکستان اور بھارت میں کچھ ان بن چل رہی تھی، بھارت سرکار اپنے اندرونی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے اپنی ایجنسیوں کے ذریعے ”تخریبی کارروائیاں کرکے” ان کا الزام پاکستان پر لگانے کی ماہر ہے تو مقبوضہ کشمیر میں اکثر ایسی کارروائیاں کی جاتی ہے اور کشمیری مجاہدین آزادی کو ان میں ملوث کرکے ان کی مبینہ پشت پناہی کے الزامات پاکستان پر دھر دیئے جاتے ہیں جس کے بعد بھارت بھر میں پاکستان مخالف جذبات ابھارتے ہوئے مسلمانوں پر عرصہ حیات بھی تنگ کردیا جاتا ہے اور ایسی ہی صورتحال کے بعد بھارتی کسانوں نے ”جذبات سے مغلوب ہوکر” ٹماٹر کی فصل کو اپنے ہاتھوں برباد کیا۔ قتیل شفائی کی روح سے معذرت کے ساتھ ان کے ایک شعر میں تحریف کرتے ہوئے صورتحال کو یوں واضح کیا جاسکتا ہے کہ
کبھی سارے، کبھی گاما، کبھی پادھا، کبھی نی سا
”کہ چٹنی جان کر اس کے ٹماٹر کو پیسا”
بھارتی کسانوں نے ٹماٹروں کی فصل کو برباد تو کردیا مگر اسے پاکستان کو برآمد کرنے کی اجازت نہیں دی اس تکبر کے غرور اور پاکستان سے نفرت کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں تو ٹماٹر سستے ہوچکے ہیں (اتنے بھی سستے نہیں کہ خوش ہوا جائے) جبکہ ہماری نسبت بھارت میں اس وقت ٹماٹر پٹرول سے بھی مہنگے ہوگئے ہیں گویا بقول ڈاکٹر نذیرتبسم
یہ سوچ لیجئے پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے
سپہ گروں کی کماں اس کے نام ہوتے ہیں
مسئلہ مگر یہ ہے کہ ٹماٹروں کی جگہ پٹرول استمال نہیں کیا جاسکتا، خیربات آگے بڑھانے سے پہلے اس ”ٹماٹرمیلے” کی بات کی جائے جو (یقین سے نہیں کہہ سکتاکہ سپین میں میلہ منعقد ہوتا ہے یا کہیں اور) ٹی وی پر اکثر دیکھا گیا ہے اس روز پورے شہر کے لوگ شاہراہوں، بازاروں اور گلیوں میں امڈ آتے ہیں اور لاکھوں ٹن ٹماٹر گاڑیوں میں ڈال کر لائے جاتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو بھی ٹماٹر مارتے ہیں ایک بھگدڑ سی مچی ہوتی ہے بھاگم دوڑ کی وجہ سے ٹماٹر پائوں کے نیچے آکر کچلے جاتے ہیں اب یہ تو نہیں معلوم کہ اس کھیل کی ابتداء کب ہوئی تاہم ممکن ہے کہ کسی سال جب ٹماٹروں کی بمپر فصل ہوئی ہو اور ٹماٹروں کا عام استعمال کے علاوہ فالتو ٹماٹروں کا کوئی مصرف نہ رہ گیا ہو تو جس طرح سپی میں بل فائٹنگ کی جاتی ہے اور ایک روز بپھرے ہوئے بیل گلیوں میں بھی چھوڑ دیئے جاتے ہیں جن سے لوگ بچنے کی کوشش میں بھی اکثر کچلے جاتے ہیں تو اسی طرز پر ٹماٹروں سے ایک دوسرے کی تواضع کی ریت پڑ گئی ہو حالانکہ یہ اتنے ظالم لوگ ہیں کہ یہی ہزاروں ٹن ٹماٹر اگر غریب ملکوںکو مفت میں (یا صرف ترسیل پر اٹھنے والے اخراجات کے عوض ہی) دے دیں تو اس سے بہتوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔ مزید یہ کہ انہی اضافی ٹماٹروں سے کیچپ اور دیگر چٹنیاں بناکر بوتلوں میں بندکرکے سستے داموں فروخت کردیں تو اللہ کی ناشکری سے بھی بچ سکتے ہیں مگر وہ تو تفریح کے مواقع ڈھونتے رہے ہیں جبکہ غریب اقوام کی بے بسی نظر نہیں آتی جو بھوک اور رزق کی تنگی کا شکار رہتے ہیں یعنی بقول شاعر
تو بھی سخن شناس تھا درد آشنا نہ تھا
تو نے بھی شعر سن کر فقط واہ واہ کی
بات ہو رہی تھی بھارت کی جہاں اس وقت ٹماٹر اور پٹرول میں مہنگائی کی مسابقت جاری ہے دہلی میں ٹماٹر 120 روپے کلو جبکہ پٹرول 95 روپے لیٹر مل رہا ہے ٹماٹر کی قیمتیں بھارت میں خراب موسم کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں اب بھارت اور پاکستان کی کرنسی کا موازنہ کیا جائے تو وہاں ٹماٹر پاکستانی روپے کے مطابق چار سو روپے میں فروخت ہورہے ہیں جبکہ وہاں ٹماٹر عوماً جون اور جولائی کے مہینوں میں مہنگے ہوتے ہیں گویا ابھی مزید مہنگے ہونے کے خدشات ہیں پشاور میں ٹماٹروں کی قیمت جیسا کہ اوپر کی سطور میں عرض کیا گیا ہے 50 روپے کلو اور دھڑی 200 روپے (یعنی 40 روپے کلو) میں دستیاب ہیں اگر بھارتی کسان حکومت کے جھوٹے پروپیگنڈے میں آکر اپنی فصلوں کو گاڑیوں تلے نہ کچلتے بلکہ پاکستان کو ایکسپورٹ کردیتے تو آج ہم یہاں سے سستے ٹماٹر بھارت کو بھیج کر اس مشکل گھڑی میں ان کے کام آسکتے تھے۔
کچھ تو خزاںہے باعث بربادی چمن
کچھ باغباں کا ہاتھ بھی اس میں ضرور ہے

مزید پڑھیں:  صوبائی حکومت کے بننے والے سفید ہاتھی