مشرقیات

کہتے ہیں ایک مرتبہ حضرت امام بخاری سفر پر جا رہے تھے۔ دوران سفر حضرت کے پاس چند ہزار دینار بھی تھے۔ کشتی میں سوار مسافروں میں سے کسی ایک مسافر نے حضرت سے دینار ہتھیانے کے لئے شورمچانا شروع کیا کہ میرے دینار چوری ہوگئے، ملاح نے مسافر سے کہا کہ جس کسی نے بھی چرالئے ہوں ابھی پتہ چل جائے گا، امام بخاری کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر ملاح نے تلاشی کے دوران یہ دینار میرے پاس دیکھ لئے تو میرے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں ان دیناروں کو اپنا ثابت کرسکوں، یہی سوچ کر حضرت نے دینار دریا میں پھینک دیئے، تلاشی کے دوران حضرت سے پیسے تو برآمد نہیں ہوئے لیکن مسافر کو تعجب ضرور ہوا، تھوڑی دیر بعد وہ حضرت امام بخاری کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ یہ ماجرا کیا ہے، حضرت نے مسافر سے کہا کہ یہ میں ضرور بتائوں گا لیکن پہلے آپ ان تمام موجود مسافروں کے سامنے اعتراف جرم کرکے اپنی ندامت کا اظہار کریں، مسافر کے ایسا کرنے کے بعد حضرت نے فرمایا کہ میں نے وہ دینار دریا برد کئے اور وہ اس لئے کہ میں حدیث کا ایک طالب علم بھی ہوں اور استاد بھی اور میں نہیں چاہتا کہ کل کلاں میری کتاب میں لکھی گئی کسی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے لوگ میری نسبت اس واقعہ سے کریں جس میں میرا نام کسی دینار چرانے والے آدمی کی حیثیت سے لیا جائے، یہ شان تھی ہمارے اکابرین کی جو حدیث کے ایک استاد کی حیثیت سے اپنے نام کو کسی بھی قسم کے داغ سے پاک رکھنے کے لئے ہزاروں دینار دریا میں بہا دیتے تھے اور ایک ہم ہیں جو ایک دینار کی خاطر اپنے نام، پہچان اور ضمیر کا بھی سودا کردیتے ہیں، کوئی مسجدوں میں مختلف حیلے بہانوں سے جھوٹ موٹ کے قصے گھڑ کر پیسے بٹورتے ہیں تو کوئی بازاروں میں مختلف طریقوں سے لوگوں سے پیسے ہتھیا لیتے ہیں، کوئی بیماری کا فسانہ گھڑ کر تو کوئی تنگدستی کا قصہ سناکر۔ مسجدوں سے باہرگداگروں کی لمبی قطاریں نمازیوں کی منتظر ہوتی ہیں، اپنے ہاتھوں میں ڈاکٹروں کے نسخے تھامے یہ خواتین و حضرات زیادہ تر ان مسجدوں کا رخ کرتے ہیں جہاں نمازیوں کا رش نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، کچھ خواتین اپنے بچوں کو کندھوں پر بٹھائے اپنی روندی شکل کے ساتھ انسانی جذبات کو ابھارتے ہیں اور مختلف واسطوں سے ان کی غیرت انسانی کو للکار کران کی کمزوریوں سے استفادہ کرتی ہیں۔
لاری اڈوں اور بازاروں میں ان پیشہ ور گداگروں کی ترکیبیں مختلف ہوتی ہیں، کچھ حضرات خوبصورت کپڑے زیب تن کئے یہ تاثر دینے کی کو شش کرتے ہیں کہ ان کی جیب کسی نے کاٹ لی ہے اور یوں اپنے گھر جانے کے لئے ان کے پاس پیسے کم پڑگئے ہیں، کئی حضرات ہاتھ میں تسبیح، مذہبی کتابیں، رومال یا ٹوپی تھامے اسے بیچنے کے بہانے بھیک مانگتے ہیں تو کوئی پھول تھامے اسے بیچنے کے بہانے چوراہوں پر نت نئے طریقوں سے بھیک مانگتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ