فوجی عدالتیں،سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی حکومتی استدعا مسترد کردی

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ آف پاکستان نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ فل کورٹ اس وقت بنانا ناممکن ہے، 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت کی، جسٹس اطہر من اللّٰہ ملک سے باہر ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سویلینز کو آئین کے برخلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے لئے نہیں بھیجا جا سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ کا حصہ ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کو ہر کوئی سنجیدہ جرم تسلیم کرتا ہے۔ کوئی بھی ملزمان کو چھوڑنے کی بات نہیں کر رہا۔ سویلنز کو کچھ آئینی تحفظ حاصل ہیں۔ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز تحریری جواب جمع کرا دیا تھا جس میں ایک بار پھر عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔ دورانِ سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1999 میں سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس میں اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
عابد زبیری نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل نہیں ہو سکتا ، عدالت نے کہا کہ سویلین دفاعی معاملات میں ملوث نکلے تو آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل ہو سکتا ہے، 21 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں فوجی عدالتوں سے سزاؤں پر جوڈیشل ریویو کی اجازت تھی، بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، کیا ملزمان کو فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواست دینے کی اجازت ہو گی؟ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے 23 جون کے حکم نامے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے اضافی نوٹ کا حوالہ دیا، جسٹس یحییٰ آفریدی کا فل کورٹ بنانے سے متعلق نوٹ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں فل کورٹ کو یہ معاملہ سننا چاہیے، جسٹس یحییٰ آفریدی کے مؤقف کی تائید میں فل کورٹ بنانے کی استدعا ہے، آرمی ایکٹ سے متعلق یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جسے فل کورٹ سنے۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تمام ججز کی دل سے عزت اور ان کے مؤقف کو احترام سے دیکھتا ہوں، میں نے بھی جسٹس یحییٰ آفریدی کا نوٹ پڑھا ہے، آپ میرے بھائی یحییٰ کی گریس دیکھیں، انہوں نے بینچ کی تشکیل کے بجائے عدالت کی توقیر اور اعتماد کی بات کی، اس حقیقت کے باوجود کہ یہ کیس کافی حد تک سنا جا چکا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جب بینچ بنایا تب تمام ججز سے مؤقف لیا اور دستیاب ججز پر بینچ بنایا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ اس وقت بنانا ناممکن ہے، تمام ججز پر مشتمل بینچ بنانا تکنیکی بنیاد پر ہی ممکن نہیں، 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت کی، کچھ ججز ملک میں نہیں ہیں، جسٹس اطہر من اللّٰہ ملک سے باہر ہیں، ہم آپ کو تفصیل سے سننے کے لئے وقت دیں گے، کیس کے پہلے دن 2 ججز نے اپنی وجوہات پر کیس سننے سے معذرت کی، تعجب ہوا جب وفاق نے دوسری سماعت پر آ کر ایک جج پر اعتراض کیا، جسٹس منصور نے اپنی وجوہات پر کیس سننے سے معذرت کی، عوامی مفاد کے کیس میں کسی جج کا ذاتی مفاد نہیں ہوتا، بینچ 9 ججز سے کم ہو کر 6 ججز پر رہ گیا، خوشی ہوئی کہ فوجی تحویل میں افراد کو ان کے اہِلِ خانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی
اس کیس میں آئینی سوالات کے جوابات ملنا ضروری ہیں، ملک میں ہر ایک فکر مند ہے کہ سویلینز کو کیسے آرمی ایکٹ کے سخت مدار سے گزارا جائے گا؟ آرمی ایکٹ ایک سخت قانون ہے، درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، اب اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تمام سوالات کے جوابات دینے ہیں، لطیف کھوسہ نے شروع میں ہی کہا تھا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات چلائے جائیں، ہر کوئی تسلیم کرتا ہے کہ 9 مئی کے واقعات سنجیدہ نوعیت کے تھے، فل کورٹ کی درخواست پر ہم آپس میں مشاورت کر لیں گے، فل الحال فل کورٹ بنانا ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

مزید پڑھیں:  اسلام آباد میں غزہ کیمپ پر گاڑی چڑھا دی گئی ، 2افراد جاں بحق