بجلی کے شدید ترین جھٹکے اور عوام کی فریاد

گزشتہ کچھ عرصے سے گیس اور بجلی کے نرخوں میں بار بار اضافے کے بعدگزشتہ روز ایک بار پھر جس شدت کا بجلی کا جھٹکا عوام کو لگایا گیا ہے اس نے ماضی کے تمام بجلی کے جھٹکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، اب کی بار ان صارفین کو بھی معاف نہیں کیا گیا جن کو ایک خاص حد تک بجلی خرچ کرتے ہوئے کچھ کچھ رعایت کا مستحق قرار دیا جاتا تھا جبکہ اب ان کو بھی نہیں بخشا گیا اور سو یونٹ والے گھریلو صارفین کیلئے بجلی کے نرخوں میں 3 روپے، 200 یونٹ تک 4 روپے یونٹ، 300 یونٹ تک 5 روپے، 400 یونٹ تک ساڑھے چھ روپے جبکہ 400 سے 700 یونٹ والوں کیلئے ساڑھے سات روپے فی یونٹ کا اضافہ کردیا گیا ہے، ستم ظریفی یہ ہے کہ سیلز ٹیکس اور دیگر محصولات شامل کرنے کے بعد صارفین کیلئے زیادہ سے زیادہ فی یونٹ 50 روپے 41 پیسے ہوجائے گا، اسی طرح کمرشل صارفین جو جنرل سروسز اے تھری کیٹگری میں شامل ہیں ان کا بنیادی ٹیرف ساڑھے سات روپے اضافے کے ساتھ 37 روپے 31 پیسے ہوجائے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت نے جن سخت شرائط پر حال ہی میں قرضے کا معاہدہ کیا ہے یہ اسی کا شاخسانہ ہے کیونکہ بقول وزیراعظم شہباز شریف سابق حکومت کے آئی ایم ایف معاہدے سے انحراف کے بعد جس طرح موجودہ حکومت سے مالیاتی ایجنسی نے ناک رگڑوا کر اسے بڑی مشکل سے قرض دینے پر آمادگی ظاہر کی اور انتہائی سخت ترین شرائط عائد کیں اس کے بعد اگرچہ حکومت کے پاس ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا مگر عوام اس مہنگائی کے طوفان سے کس طرح نبردآزما ہوسکیں گے، اس کا کوئی علاج دکھائی نہیں دیتا۔ اتنی مہنگی بجلی کے اثرات صرف روزمرہ کے اخراجات میں اضافے ہی کی صورت میں برآمد نہیں ہوں گے بلکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات یوں پڑیں گے کہ صنعتی استعمال کیلئے فراہم کرنے والی بجلی کے اخراجات میں اضافے سے صنعتوں کی رفتار سست ہوتے ہوئے خدانخواستہ مکمل طور پر صنعتوں کے بند ہونے پر منتج ہوسکتی ہے کیونکہ انتہائی مہنگی بجلی سے صنعتی پیداوار کے حوالے سے ہم عالمی سطح پر بیرونی منڈیوں میں مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی مہنگی اشیاء کون خریدنے پر تیارہوگا؟ پھر جو بیرونی سرمایہ کار بڑی مشکل سے ہمارے ہاں سرمایہ کاری پر راضی ہوئے ہیں وہ اس صورتحال میں کیا اپنے سرمائے کے ڈوبنے کے خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے سرمایہ پاکستان لانے پر تیار ہوں گے؟ اور جو لوگ پہلے ہی مہنگی بجلی خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے کنڈا کلچر کو فروغ دے رہے ہیں کو روکنے کی کوئی سبیل کی جاسکے گی؟ اس صورتحال کا دوسرا پہلویہ ہے کہ مراعات یافتہ طبقات کو مفت بجلی کے ساتھ دیگر مراعات پر بے دردی سے قومی خزانہ لٹایا جا رہا ہے اس کا جواز کیا ہے ان دنوں سوشل میڈیا پر اس حوالے سے جو ٹرینڈز چل رہے ہیں ان پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز