قابل توجہ مسئلہ

ایک جانب بی آر ٹی کے مزید فیڈر روٹس کے اجراء کے عوامی مطالبات میں شدت آگئی ہے ریگی للمہ سمیت مختلف مجوزہ روٹس کے اجراء کا کام اعلانات کے باوجود شروع نہیں ہوسکا ہے وہاں اچھی خبر یہ ہے کہ چمکنی تا پبی بی آر ٹی کی سروس چلانے کا عندیہ دیاگیا ہے لیکن دوسری جانب ایک بڑی مشکل کا سامنا بلکہ ناکامی یہ سامنے آگئی ہے کہ پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے میں شامل تجارتی مراکز کا تعمیراتی کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اب تک تجارتی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ منصوبے میں مختلف انڈر پاسز میں دکانیں بنائی گئی ہیں اسی طرح چمکنی، حیات آباد اور ڈبگری ڈپو میں بڑے بڑے شاپنگ مالز کی منصوبہ بندی کی گئی تھی تاہم تینوں ڈپوئوں میں سے ایک میں بھی اب تک تجارتی سرگرمیاں شروع نہیں ہوسکی ہیں دوسری جانب بی آر ٹی کے انڈر پاسز کے تجارتی مراکز سنسان پڑے ہو ئے ہیں۔ مختلف پالیسیوں کے باعث بی آر ٹی کے انڈر پاسز کی دکانیں ناکام ہو گئی ہیں امرواقع یہ ہے کہ بی آرٹی نے تجارتی سرگرمیوں سے بڑی آمدن پیدا کرنی تھی جو اب تک نہیں ہوسکی اور اپنے اخرجات پورے کرنے کیلئے ٹرانس پشاو رکو سالانہ اربوں روپے کی سبسڈی درکارہوتی ہے ۔ان تمام خامیوں او ر ناکامیوں کے تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس پر سہولت سفری ذریعے کو پیشہ وارانہ اورکاروباری انداز میں چلانے پر توجہ نہیں دی جارہی ہے یاپھر حکومت اور انتظامی افسران کے پاس درکار تجربہ استعداد اور قابلیت ہی شاید موجود نہ ہو جو آمدنی میں اضافہ کے اقدامات کرسکے ۔ سٹیشنز پر اے ٹی ا یمز لگانے اور دیگر ذرائع اوراقدامات سے آمدن پیدا کرنے کا احسن اعلان کیاگیا تھا مگر اس پر بھی ہنوز عملدرآمد نظر نہیں آتی جس سے سارا بوجھ ہی سرکاری خزانے پڑ رہا ہے اورحکومت باربار رقم کے اجراء میں تاخیر پر مجبور ہوتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹرانس پشاور کو خالصتاً پیشہ ورانہ انداز میں چلانے اور اس کا خسارہ کم سے کم کرنے پر توجہ دی جائے اور زیر تکمیل تجارتی مراکز کوجلد مکمل کرکے مناسب کرایہ پردی جائیں۔

مزید پڑھیں:  کیا پسندوناپسند کا''کھیل ''جاری ہے ؟