عوام پر بوجھ بڑھانے کی حکومتی پالیسی

نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر جنوری 2024 سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی ”نوید” سناتے ہوئے کہا ہے گردشی قرض میں اضافہ روکنے کے لئے گیس کی قیمتیں مزید بڑھانا ہوں گی۔ آئی ایم ایف کو توانائی شعبے کے ٹیرف پر نظرثانی سے آگاہ کردیاگیا۔ نگراں وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک میں مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ جاری رہے گا، زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جائے گا، آئی ایم ایف نے بینکوں کے مالی استحکام کیلئے مزید اقدامات کا کہا ہے۔نگران وزیر خزانہ کی مژدہ دی گئی ساری کارروائیاں اور کام ہونے ہیں اس وقت کسی ایک پر بھی کام نہیں ہو رہا ہے نیز یہ مجوزہ اقدامات اور جملہ دعوے ایسے ہیں جس پر غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا کا مصرعہ درست آتا ہے اور پوری طرح صورتحال کی عکاسی کا حامل ہے بنا بریں ان اعلانات پر کسی خوش گمانی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے بیان سے تو اس بات کی تشویش کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف کا حالیہ پروگرام اور اس کی اقساط کافی نہیں بلکہ ابھی سے ایک اور ڈیل کے لئے تیاریاں شروع کرنے کی ضرورت ہے موجودہ پروگرام کے اثرات کسی سے پوشیدہ نہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتے عوام کی جوحالت ہوگئی ہے ایسے میں ایک مزید پروگرام پر آئی ایم ایف کو راضی کرنے کے لئے خدانخواستہ نجانے کیا کچھ گروہی رکھنا پڑے اور نجانے کس قسم کی شرائط بامرمجبوری ماننی پڑ جائیں اس کا تو تصور ہی خوفناک ہے۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے یہ بھی کہا کہ ریئل اسٹیٹ اور ریٹیلرز سمیت مختلف شعبوں پر اضافی ٹیکس لگانے کا فیصلہ نہیں ہوا آئی ایم ایف سے قرضے کی اگلی قسط کا حصول حکومت کے لئے تو شاید سکھ کا سانس لینے کا موقع ہو مگر عوام کے لئے سوہان روح سے کم نہیں جب سے آئی ایم ایف کے تازہ قرضے کی معاملت شروع ہوئی ہے اس کے بعد یکے بعد دیگرے دو حکومتوں کے اور اب نگران دور میں بھی عوام ہی پربوجھ ڈالنے کا عمل جاری ہے اس کے باوجود کہ آئی ایم ایف ان شعبوں کو ٹیکس کے دائرہ کارمیں لانے پر زور دیتا ہے جس میں گنجائش موجود ہومگر ہر دور حکومت میں زرعی شعبہ او ررئیل سٹیٹ وہ نو گو ایریاز ہیں جس میں ٹیکس لگانے کی کسی حکومت کو جرأت نہیں ہوئی دوسرے لفظوں میں حکمران خود پر اور اپنے حواریوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے پر تیار ہی نہیں وزیر خزانہ نے جہاں گیس مزید مہنگی کرنے کا عندیہ دیاوہاں انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ محولہ دو شعبوںپراس کے باوجود ٹیکس لگانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا نتیجے میںعوام پر بوجھ کی منتقلی ہی کا سہل راستہ اختیار کیا گیا جس کے بعد گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا گیس صارفین اس کے منفی اثرات سے کس قدر متاثر ہوں گے اس کا اندزہ لگانا مشکل نہیں اب قدرتی گیس کی فراہمی میں گردشی قرضوں میں اضافے کی نئی مشکل سامنے آئی ہے گردشی قرضے کی اصطلاح استعمال کرکے حکام وہ سارا بوجھ عوام پر منتقل کرتے ہیں جس کا صارفین کے گیس کے استعمال اور ادائیگیوںسے کوئی تعلق نہیں بلکہ درحقیقت یہ وہ اضافی اخراجات اور خسارہ ہے جو شاہانہ اخراجات چوری اورملی بھگت اور اس جیسے عوامل کے باعث بڑھتے چلے جاتے ہیں صارفین کوقدرتی گیس کی فراہمی اور صارفین کی جانب سے نہ صرف ماہانہ ادائیگی بلکہ ساتھ ہی مختلف ناموں سے بلوں میں شامل مختلف اضافی ادائیگیوں کے باوجود بھی صارفین ہی کوقربانی کا بکرا بنا دیا جاتا ہے یہ عمل گیس اور بجلی ہر دونوں شعبوں میں یکے بعد دیگرے ہوتا رہا ہے اور اب اس میں تیزی آرہی ہے اور اضافے کی شرح بھی ناقابل برداشت ہو گئی ہے۔اب تو اس تسلسل کے ساتھ ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ گزشتہ ماہ کے بل اور آئندہ ماہ کے بلوں میں نمایاں فرق واضح ہے گیس ہویا بجلی کے بل حکومت کو صارفین کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرکے قرضے کی قسط لینا ہوتی ہے مشکل امر یہ ہے کہ آئی ایم ایف قرض دیتے وقت جو مشورے دیتی ہے بدقسمتی سے حکومت ان پر عملدرآمد کرنے پر تیار ہی نہیں ہوتی اور سارا بوجھ عوام ہی پر ڈالنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں عالمی قرض دہندہ ادارہ آئی ایم ایف اب پہلے کی طرح رعایت دینے پرتیار نہیں یا پھر ان کا حکومت پراعتبار اٹھ گیا ہے اس لئے پیشگی اقدامات عملی بنوا کر ہی آئی ایم ایف قرضے کی قسط جاری کرتی ہے بجلی اور گیس کی قیمتوں کااطلاق بھی سابقہ استعمال شدہ یونٹوں پر پچھلی تاریخوں میں ہوتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ بجلی کے مزید بقایا جات سردیوں میں اور گیس کے مزید بقایا جات گرمیوں میں وصول کرنے کا حربہ اختیار کیا جارہا ہے۔ ملک کے تیزی سے کم ہوتے ملکی گیس کے ذخائر اور مہنگی گیس کی درآمدات پر ہمارا بڑھتا انحصار اس پالیسی میں نظر ثانی کا مطالبہ کرتا ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ کھاد بنانے والی کمپنیوں کو فراہم کی جانے والی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرے تاکہ انہیں باقی صنعتوں کے برابر لایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی، اسے 2021 میں کیے گئے سابقہ پالیسی فیصلے کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے فضول اور ناکارہ پاور کمپنیوں کے لئے ایندھن پر سبسڈی دینے کی اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔حکومت کو ہر بار عام صارفین اور چھوٹے کاروباری طبقات ہی کو متاثر کرنے کی بجائے اب ایسی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں یہ صارفین کم سے کم متاثر ہوں اور گھریلو صارفین پر بوجھ بڑھانے کا توکوئی جواز نہیں۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں