افغان ٹرانزٹ ٹریڈ

کسٹم انٹیلی جنس رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور افغان امپورٹس سمگل ہو کر پاکستان میں ہی فروخت ہوتی ہیں۔ پاکستان کی25کروڑ کے مقابل افغانستان کی صرف5کروڑ آبادی کے لئے پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کئی گنا زیادہ ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی درآمدی قدر کے اعداد و شمار پاکستان کے مقابلے میں حیران کن زیادہ ہیں۔امر واقع یہ ہے کہ امریکی دلچسپی کی وجہ سے نیٹو کی غیرفوجی ا شیاء کی افغانستان ترسیل سہل بنانے کے لئے ہونے والے معاہدے سے سمگلروں نے افغانستان کے نام پر دنیابھر سے مختلف اشیاء منگوا کر جس طرح پاکستان میں فروخت کیں اس سے پاکستان کروڑوں روپے کسٹم ڈیوٹی ہی سے محروم نہ ہوا بلکہ پورے ملک میں مختلف ناموں سے درآمدی مال کی مارکیٹیں کھل گئیں اس معاہدے سے پہلے بھی افغانستان سے پاکستان سمگلنگ ہوتی تھی لیکن وہ بہت ہی محدود پیمانے پر ہوتی تھی اس لیے کہ افغانستان تک دنیا کے مال کی رسائی کو کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں تھی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے کے بعد گویا ایک بند ٹوٹ گیا اور سمگلنگ کی اشیاء کی بھر مارہوگئی جس میںسرکاری اداروں کی ملی بھگت اور بدعنوانی وسرپرستی کوئی راز کی بات نہیں اس معاہدے کا پاکستان کو سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مقامی طور پر دیگر ممالک کی طرح یہاں چھوٹے پیمانے پر اشیاء کی پیداوار شروع نہ ہوسکی اور جو کچھ بن رہا تھا وہ بھی ختم ہوگیا اس لیے کہ یہ سمگل شدہ چیزیں قیمت میں سستی اور معیار میں بہتر تھیں اس طرح پاکستان کو دوہرا نقصان ہوا اس کی اپنی انڈسٹری ختم ہوگئی اور سمگل شدہ مال کی وجہ سے اسے کسٹم ڈیوٹی میں نقصان ہوا جو کہ سالانہ کئی سو ارب روپوں سے زیادہ تھاجوہوا سو ہوا کے مصداق اب جبکہ اس کی روک تھام کا عزم ظاہر کیاگیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر پوری طرح عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور سمگلنگ کے تمام سرحدی راستوں کے ساتھ ساتھ اندرون ملک ان مارکیٹوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے اور کسٹم ڈیوٹی ادا کئے بغیر کسی قسم کے مال کی فروخت کا امکان ہی ختم کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  اس آسیب سے قوم کو نجات دلائیں