پشاور کی آلودہ ترین فضا

ایئر کوالٹی انڈکس میں 304یونٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پشاور کس قدر آلودہ شہر ہے پشاور میں لگائے گئے 7میٹرز کی اوسط 304یونٹس ہے پشاور کے مختلف مقامات میں لگائے گئے پیر کی رات 9بجے ریکارڈ کی جانیوالی میٹر ریڈنگ کے مطابق سب سے آلودہ ہوا پشاور کے دلہ زاک روڈ پر ہے جہاں 465 یونٹس ہیں اسی طرح امریکی قونصلیٹ میں لگائے گئے میڑ کی ریڈنگ 367، سول سیکرٹریٹ میں لگائے گئے میٹر کی ریڈنگ 336، یوسف آباد ورسک روڈ کی ریڈنگ 304، جی ٹی روڈ پشاور کے میٹر کی ریڈنگ 300، صنعتی زون حیات آباد کی ریڈنگ 249اور حیات آباد پارک ایئر کوالٹی کے میٹر کی ریڈنگ 214ریکارڈ کی گئی ہے ۔ماحولیاتی کثافت و آلودگی جانچنے کی جو رپورٹ زیر نظر ہے اس کے مطابق پشاور کا کوئی علاقہ یہاں تک کہ حیات آباد بھی مضرصحت ماحول سے پاک نہیں اگرحیات آباد جیسا علاقہ جہاں نسبتاً کھلی جگہیں پارک چوڑے سنٹر میڈیا درخت کافی ہیں اور بڑی گاڑیاں بھی نہایت کم چلتی ہیں اس کے باوجود بھی اگر وہاں کا ماحول بھی مضر صحت کے پیمانے میں آتا ہے توپشاور کے دیگر شہر علاقوں کا ذکر ہی کرنے کی ضرورت نہیں ۔صوبائی دارالحکومت میں بدترین آلودگی کی وجوہات جاننا کوئی مشکل نہیں اس کے عوامل ہم اپنے ہاتھوں پوری کر رہے ہیں اور اس کاذمہ دار ہم اور ہماری حکومت اور خاص طور پر ماحولیات کے نام پرچلنے والے ادارے ہیں صوبائی دارالحکومت پشاور جو کبھی باغوں اورپھولوں کا شہر کہلاتا تھا اب تیزی سے کنکریٹ کے جنگل میں ڈھل رہا ہے مرکزی علاقے تو بھر چکے اب مضافات یہاں تک کہ نوشہرہ اور چارسدہ تک دوسری جانب خیبر سے کوہاٹ ٹنل تک کا سارا علاقہ آبادی میں اضافے کی زد میں ہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ ماحولیاتی پیمانے کے اس قدر خوفناک رپورٹ کے باوجود اور حکومت کی طرف سے بے بنیاد پابندیوںکے باوجود اب بھی پشاور کے ارد گرد کے باقی ماندہ علاقے کھیت کھلیان سبزہ باغات اور کھلے مقامات ہائوسنگ سکیمز کے طاقتور نہنگوں کے منہ کا نوالہ بدستور اور مسلسل نشانہ بن رہے ہیں۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے پیمانے جان بوجھ کر مقررہ حد سے کہیں زیادہ اونچائی پر نصب ہیں اگر ان پیمانوں کو معیاری حد پر لا کر نصب کیاجائے تو رپورٹ مزید خوفناک ہوسکتی ہے ۔پشاور میں محولہ حالات کے باوجود صورتحال کو خطرناک قرار نہیں دیا گیا لیکن لاہور اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں میں خطرناک آلودگی کے باعث تعلیمی اداروں کی بندش کی نوبت آگئی ہے کراچی میں بھی صورتحال تشویشناک ہے پشاور میں بھی صورتحال کوئی تسلی بخش نہیں اس کے باوجوداس حوالے سے اقدامات تو درکنار شعور اجاگر کرنے اور ہوا کی آلودگی کوآلودگی سمجھنے اور سمجھانے کے عمل کی ضرورت محسوس ہوتی ہے امرواقع یہ ہے کہ ہوا کے معیار کی خطرناک سطح، جس میں AQI ریڈنگز اکثر محفوظ حدوں سے بڑھ جاتی ہیں، صرف پیمانے پر نمبر نہیں ہیں بلکہ صوبائی دارالحکومت کے رہائشیوں کو درپیش صحت کی ہنگامی صورتحال کی ایک سنگین یاد دہانی ہے۔ جس سے شہریوں کو ماحولیاتی اور صحت عامہ کی تباہی کا سامنا ہے یہ بحران ا ن عوامل کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے جس میں گاڑیوں اور صنعتی اخراج، اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والا دھواں، پرنسے جلانا، اور تعمیراتی سرگرمیاں شامل ہیں۔ موسم سرما کا آغاز درجہ حرارت کے الٹ جانے جیسے موسمیاتی مظاہر کی وجہ سے صورتحال کو مزید بڑھا دیتا ہے ۔ صورتحال پرقابوپانے یاکم ازکم ماحولیاتی کثافت میں قدرے کمی لانے کا تقاضا ہے کہ ہنگامی بنیادوں پراس سنگین مسئلے پر توجہ دی جائے مگر لگتا ہے کہ طویل مدتی وژن کا فقدان ہے۔ جرمانے اور مسمار کرنے جیسے تعزیری اقدامات پر توجہ مرکوز کرنا اور صنعتی یونٹس کی نگرانی کے لیے ٹیموں کی تعیناتی ضروری اقدامات ہیں لیکن یہ ایک کثیر جہتی مسئلے کی صرف سطح کو کھرچتے ہیں۔صورتحال اس امر کے متقاضی ہے کہ تمام شعبوں میں پائیدار طریقوں کے ساتھ سخت ماحولیاتی ضابطے کے نفاذ کو یکجا کرکے اس پرعملدرآمد کو یقینی بنایا جائے صنعتوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں صاف ستھری ٹیکنالوجیوں کو اپنانا، پرالی جلانے کو روکنے کے لیے پائیدار زراعت کو فروغ دینا، فضلے کے انتظام کو بڑھانا، اور گاڑیوں کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے عوامی نقل و حمل کو بہتر بنانا شامل ہے۔ شہریوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے کہ وہ ماحولیات کے حوالے سے با شعورہوں اوراپنے حصے کا تعاون کریںاس سنگین صورتحال کی بنیادی وجوہات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل کا وقت ہے جو خودماحولیاتی آلودگی اور کثافت کی طرح دبیز اور وسیع ہے۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے