ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آگئی

سیاسی افراتفری میں اضافہ یوں ہو رہا ہے کہ کئی ایک سیاسی جماعتیں اندرونی اختلافات کے باعث درون خانہ تقسیم کا شکار ہو رہی ہیں بلکہ زیادہ وضاحت سے کہا جائے تو یہ تقسیم نمایاں ہو چکی ہے اور ملک کی کم از کم تین جماعتیں اس صورتحال سے دو چار ہیں ‘ نون لیگ کے اندر بھی خاموشی سے پڑنے والی دراڑیں اب آہستہ آہستہ واضح ہونا شروع ہو چکی ہیں ۔ شنید ہے کہ کم از کم پنجاب کی سطح تک وزارت علیا کے لئے بھائیوں کے بچوں میں نااتفاقی ہے ‘ اسی طرح سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے بیانات کی وجہ سے پارٹی کے لئے محاورةً سانپ کے منہ میں چھپکلی والی صورت اختیار کر چکے ہیں جسے نہ اگلا جا سکتا ہے نہ نگلا جا سکتا ہے ‘ ان کے ساتھ ایک سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی”تکلیف دہ” بنتا دکھائی دے رہا ہے ماضی قریب میں ان کے بیانات بھی پارٹی کے لئے خاصے ”ڈیمیجنگ”تھے ‘ اور پھر انہوںنے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر ”بغاوت” کی جو صورتحال پیدا کر دی تھی اس پر پارٹی کے اہم حلقوں نے انہیں نظر انداز کرنے کی حکمت عملی اختیار کرکے شاید عقلمندی ہی کا ثبوت دیا گویا یہ سوچ کر بقول شاعر
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
مگر اب پارٹی ہی کے ایک اور رہنما دانیا ل عزیز نے پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دے کر مخالف سیاسی جماعتوں کے ہاتھ مضبوط کر دیئے ہیں ‘ خاص طور پر جس طرح پیپلز پارٹی کے چیئرمین سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ‘ اتحادی جماعت کے دور میں بھر پور طریقے سے اقتدار کے مزے لوٹنے کے باوجود اب خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے تمام تر ”ناکامیوں” کاملبہ شہباز شریف پر گرا رہے ہیں حالانکہ اتحادی حکومت میں شامل ہر جماعت اتحادی دور کی ہر کامیابی اور تمام تر ناکامیوں میں برابر کے شریک ہونے سے انکار نہیںکر سکتی ‘ مگر جب خود ایک پارٹی کے اپنے ہی لیڈر اپنی ہی جماعت کے اہم رہنما کو مہنگائی کا ذمہ دار قرار دینے پر تل جائیں تو دیگر جماعتوں پر الزامات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ فارسی زبان کی ایک ضرب المثل ہے کہ دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست ‘ یعنی دوست وہ جو دوست کا ہاتھ پکڑے ‘ اس ضرب المثل کو دوست کی جانب سے دوسرے دوست کا ہاتھ تھامنے اور اس کی مدد کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے مگر یہاں ایک دوست نے دوسرے کے ہاتھ تھامنے کی یوں کوشش کی ہے کہ اس کے ہاتھ تھام کراسے ”بے دست” بنا کر مخالفین کے حملوں کا نشانہ بنانے میں تعاون کیا ہے ۔ بقول ظفر اقبال
مدد کی تم سے توقع تو خیر کیا ہو گی
غریب شہر ستم ہوں میرا پتا رکھنا
دوسری جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے اندران دنوں اختلاف کی ہوائیں کبھی چل پڑتی ہیں اور کبھی ان کے آگے بند ھ باندھنے کی ترکیبیں استعمال کی جاتی ہیں ‘ پارٹی کے جواں سال رہنماء کے حالیہ دنوں میں تواتر کے ساتھ بزرگ سیاسی رہنمائوں کے خلاف سیاست کو چھوڑ کر اللہ اللہ کرنے کے بیانات نے ایک بھونچال کی سی کیفیت کوجنم دینے کی راہ ہموار کی ہے تاہم ان کے بیانات کو خاص طور پر نون لیگ کی جانب سے ”نوکمنٹس” کے جوابی بیانئے سے ناقابل توجہ قرار دینے کے بعد خود پارٹی کے شریک چیئرمین ‘ زیرک سیاستدان اور جوڑ توڑ سے بھی زیادہ مفاہمت کا بادشاہ کہلانے والے اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے ایک حالیہ انٹرویو میں جس طرح کائونٹر کرنے کی کوشش کی ہے اس سے صورتحال بہت حد تک سنبھلنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں ‘ حالانکہ اس انٹرویو کے سامنے آنے سے پہلے پارٹی کے اندر ”اختلافات” کی خبریں بہت گرم ہو چکی تھیں اور معاملات پارٹی میں دراڑیں پڑنے کی افواہوں تک چلے گئے تھے ۔ گویا بقول شاعر
ایک انگڑائی سے سارے شہر کو نیند آگئی
یہ تماشا میں نے دیکھا بام پر آتا ہوا
سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے اندر (تقریباً)کچھ بھی اچھا کی اطلاعات نہیں آرہی ہیں ‘ تحریک کے سابق چیئرمین عمران خان کو درپیش حالات کے تحت پارٹی کو متحد رکھنے کے حوالے سے پارٹی میں پڑنے والی دراڑیں جہاں روز بہ روز نمایاں ہوتی جارہی ہیں ‘ وہاں پارٹی کوقیادت کے المیے کا بھی سامنا ہے اور ایک جانب سابق چیئرمین کی اہلیہ اور بہنوں کے مابین پارٹی کے چیئرمین کے عہدے پر قبضے کے لئے رشہ کشی میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں اگرچہ وقتی طور پر اس کا حل نکال تولیاگیا ہے اور بیرسٹر گوہر کی صورت نئے چیئرمین کی نامزدگی سامنے آئی ہے تاہم اس حوالے سے بھی اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں بلکہ خبروں کے مطابق یہ اختلافات شد ت اختیار کر گئے ہیں ا دھر پارٹی کے ایک اہم اور بانی رکن اکبر ایس بابر نے جنہوں نے پارٹی پر فارن فنڈنگ کے حوالے سے مقدمہ دائر کرکے گزشتہ کئی برس سے پارٹی قیادت کو تگنی کا ناچ ناچنے پر مجبور کیا ہے بھی میدان میں اتر کر انٹرا پارٹی ا لیکشن کے حوالے اور خصوصاً نئے چیئرمین کے انتخاب کے معاملے پرموجودہ صورتحال کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے معاملات کو پارٹی کے آئین کے تحت حتمی نتائج تک پہنچانے کا اعلان کردیا ہے ‘ اب اس پارٹی کی صورتحال کیا بنیت ہے اس حوالے سے آئندہ ایک دو روز میں معلوم ہوسکے گا ‘ اب تو قرعہ فال بیرسٹرگوہر کے نام ہی نکلا ہے توان پراس کہانی کا بھی اطلاق ممکنہ ہو گا ۔ جب کسی ملک میں نئے بادشاہ کی تقرری کا معاملہ درپیش ہوا تو دربار کے سیانوں نے فیصلہ کیا کہ کل صبح شہر پناہ کی دیوار کا دروازہ کھلنے کے بعد جو پہلا شخص شہر کے اندرداخل ہو گا وہی ہمارا نیا بادشاہ ہو گا’ یوں اگلی صبح جب فجر کے وقت جوپہلا شخص شہر کا دروازہ کھلنے کے بعد اندرآیا سپاہی اسے پکڑ کر دربار میں لے گئے ‘ اگرچہ وہ شخص اس شہر کے لئے اجنبی تھا مگر قانون کے مطابق درباریوں نے اسے قبول کرلیا اس کہانی میں اگرچہ کچھ دیگر تفصیلات بھی ہیں جن کا تذکرہ قابل ذکر کے زمرے میں نہیں آتا کہ کہیں کسی کے ماتھے پر شکنیں نہ پڑ جائیں ‘بس اتنا ہی کہہ دیناکافی ہے کہ موصوف یعنی نامزد چیئرمین بھی پارٹی کے لئے”اجنبی” ہی ہیں کیونکہ ان کی نسبت کئی سینئر رہنما پارٹی میں موجود ہیں ‘ مگر جب چیئرمین کے اپنے ہی گھر میں عدم اتفاق کی صورتحال ہو ‘ توپھر ”شہر کے اندرداخل ہونے والے اجنبی” کو ہی ”بادشاہ” تسلیم کرنا پڑتا ہے یوں گویا نئے چیئرمین کی تولاٹری ہی لگ گئی ہے ‘ بہرحال اس فیصلے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر جو فوری نتیجہ سامنے آیا ہے اس کو یوں سمجھا ‘ دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے کہ چیئرمین کے ہاتھ سے پارٹی کی قیادت ”مٹھی میں سے ریت” کی مانند سرک گئی ہے اور پھر یہ ریت واپس مٹھی میں آتی ہے یا پھر وقت کی آندھی اسے بکھیر کر رکھ دیتی ہے ۔ بقول راحت اندوری
بچا کے رکھی تھی کچھ روشنی زمانے سے
ہوا چراغ اڑا لے گئی سرہانے سے
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ سابق چیئرمین کے خلاف جب سے مقدمات بنے ہیں اور ان میں مزید اضافے کے امکانات بھی ہوسکتے ہیںتو اس صورت میں جن لوگوں نے پارٹی قیادت پر ”قبضہ” کے خواب دیکھے تھے ان کے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں اور ان کی صورتحال اب یہ ہے کہ
پھول تو دودن بہار جاں فزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مر جھا گئے

مزید پڑھیں:  طوفانی بارشیں اورمتاثرین کی داد رسی