اداریہ

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان کے نظام عدل پربڑے سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں ‘اداروں سے مستفید ہونے والے ان کی رطب اللسانی کرتے ہیں جبکہ دوسری صورت میںاعتراض کئے جاتے ہیں ‘ ہمیںرویوں میںتبدیلی لانا ہوگی ‘ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی میں طلبہ اور طالبات سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں کسی مسئلے پر احتجاج ہوتو اسے قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے’ گورننس کے نظام میں بہتری لانا ہو گی ‘ انہوںنے کہا کہ ملک میں دس ہزار ارب روپے کی چوری ہو رہی ہے ‘ انہوں نے کہا کہ ہم اقتدارمیں ہوں توسب ٹھیک اوراقتدار سے الگ ہوں تو ادارے برے لگتے ہیں ‘ انہوں نے کہا کہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں ‘نوجوانوں کو ملکی ترقی میں بھرپور کردارادا کرنا ہوگا’ انہوں نے کہا کہ تمام حکومتیں چاہے وہ جمہوری ہوں یاآمرانہ دور حکومت ہو ‘ ایک تسلسل کے ساتھ ٹیکس وصولیوں کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں ‘ ٹیکس چوری پر قابو نہیں پا سکے ‘ سب سے پہلے ٹیکس سسٹم ڈیویلپ کرنا ہو گا ‘ امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا راز وہاں انصاف کی بلاتحضیص اور غیرجانبدارانہ فراہمی اور ہر طبقے سے اس کی”صلاحیت” کے مطابق ٹیکس کی وصولی پر منحصر ہوتا ہے ‘ بدقسمتی سے بقول نگران وزیر اعظم ہمارے ہاں انصاف کی فراہمی کے معیار پر ہمیشہ ہی سے سوال اٹھتے رہے ہیں یہاں طاقتور اور مراعات یافتہ طبقات کے لئے انصاف کے معیارکمزور طبقات کے مقابلے میں ہمیشہ علیحدہ رہے ہیں ‘ ماضی میں عدلیہ سے سامنے آنے والے فیصلوں پر ہمیشہ سوال اٹھتے رہے ہیں ان کی تفصیل میں جانے کی نہ ضرورت ہے نہ یہ موقع کہ ماضی کی عدالتوں کے اسی قسم کے فیصلوں کی بدولت ہی عالمی سطح پرہماری عدلیہ کے مقام کے معیار کے تعین پرریٹنگ اظہر من الشمس ہے ‘عدلیہ میں ایسے کردار اپنے فیصلوں کی وجہ سے ہمیشہ ہی تنقید کی زد میں رہے ہیں ‘ یہ بھی نہیں کہ ایسی شخصیات کاعدلیہ میں کال رہا ہے جن کے فیصلے باعث اطمینان بلکہ باعث فخر رہے ہیں اورایسے ہی اعلیٰ کردارکے حامل جج صاحبان کی وجہ سے عدلیہ کی توقیرسلامت رہی ہے ‘ تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے ایسے جج صاحبان کابھی نظام انصاف پر غلبہ رہا ہے جن کے فیصلے ملک وقوم کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کی زد میں رہے ہیں ‘ اس ضمن میں عدلیہ پرمبینہ دبائو کاتذکرہ بھی کیا جاتا ہے تاہم کسی بھی ملک کی عدلیہ کایہ کردار ہمیشہ یادرکھا جاتا ہے جب وہ کسی بھی قسم کے دبائو ‘ حرص یا لالچ سے مبرا ہوکرانصاف اورقانون کے تقاضوںکے عین مطابق آزادانہ اور بے خوف فیصلے دیتی ہے ‘ آج بدقسمتی سے ہماری عدلیہ پربھی بقول نگران وزیراعظم اگرسنگین سوالات اٹھ رہے ہیں تو ہمیں من حیث القوم اور خصوصاً عدلیہ میں موجود انصاف فراہم کرنے والوں کو ماضی بعید اور ماضی قریب میں بعض کرداروں کی وجہ سے لگنے والے الزامات کواپنی انصاف پسندی اور عدل کے اعلیٰ معیار کی بنیاد پرختم کرناہوگا’ بدقسمتی سے موجودہ حالات اور خاص طور پر آنے والے انتخابات کے حوالے سے بھی بعض فیصلوں پر سنجیدہ طبقوں کی جانب سے سوال اٹھنا قابل توجہ امر ہے ‘ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ کی غیرجانبدارانہ اور مبنی برانصاف کردارکی بحالی پرتوجہ دی جائے ‘ تاکہ ہم عالمی سطح پراپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرکے اسلام کے زریں اصولوں کے مطابق انصاف اور عدل کی فراہمی پرعمل پیرا ہوسکیں۔ جہاں تک وزیر اعظم کے اٹھائے ہوئے دوسرے اہم سوال کا تعلق ہے یعنی ہرسال دس ہزار ارب روپے کی مبینہ چوری کا تو یہ ایک انتہائی سنگین مسئلہ ے ‘ اس حوالے سے نہ صرف ٹیکس بچانے یاچوری کرنے والے ذمہ دارہیں بلکہ متعلقہ اداروں میں موجود بعض کالی بھیڑیں بھی بری الذمہ نہیں ہوسکتیں بلکہ اصل ذمہ داری انہی کی بنتی ہے جوٹیکس چوروں کو ہر قدم پرسہولتیں اورتعاون فراہم کرکے ملکی خزانے کونقصان سے دوچار کرتی ہیں ‘جب تک ان کالی بھیڑوں کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی جائے گی اس صورتحال پرقابونہیں پایا جا سکے گا ‘ اورخمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑے گا ‘ جوپہلے ہی ہر قسم کے باالواسطہ اور بلاواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگی پر مجبور ہیں ‘ جہاں تک نوجوان طبقے سے امیدیں باندھنے کا تعلق ہے یقینا یہ طبقہ ہی ملک کے مستقبل کا امین ہے لیکن معاشرے میںموجود ناانصافی ‘ میرٹ کاقتل اوربے جا سفارش سے جو ہر قابل آگے آنے میں مشکلات کا شکار ہے’ ملازمتوں کی بندربانٹ ہو یا پھر ”خریدوفروخت” اس قسم کے حالات کی وجہ سے میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں ‘ مخصوص طبقات کے ہاتھوں میںملازمتوں کے کوٹہ سسٹم کے تحت صرف ”من پسند” افراد کو سرکاری نوکریوں کے حصول میں آسانیاں فراہم کرنے سے نہ صرف حقداروں کاحق مارا جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ”نالائقوں” کو بھرتی کرکے اداروں کی کارکردگی بھی متاثر کی جاتی ہے ‘ جب تک ان خرابیوں کو دور نہیں کیاجائے گا ملک ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہو سکتا ‘ مگراب یہ خرابیاں بہت نیچے تک ہمارے رویوں میں سرائیت کر چکی ہیں’ جن سے چھٹکارا پانے کے لئے بھی انصاف کے معیار کو اپنانا ہوگا ۔ یہی اس مسئلے کا حل ہے۔

مزید پڑھیں:  خشت اول کی کجی اصل مسئلہ ہے