کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں ؟

شمالی وزیرستان کے شہر میر علی سے گزشتہ روز نامعلوم افراد نے شہر کے مرکزی بازار سے 6 محنت کشوں کو اغواء کرکے سفاکانہ انداز میں قتل کردیا۔ مقتولین کی شناخت کے مطابق ان کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان سے تھا اور وہ میر علی کے بازار میں قائم ہیئر کٹنگ سیلونز (حجامت کی دکانوں)پر کام کرتے تھے۔ مقامی پولیس کے مطابق دہشت گردی کی اس واردات کی ابھی تک کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی البتہ سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے جاری کیا گیا ایک اعلامیہ مختلف کہانی سناتا رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے چند گھنٹے بعد اس واردات کی ذمہ داری قبول کرنے والے اعلامیہ کی تردید کرتے ہوئے اسے فوٹو شاپ قرار دیا۔ پہلے اعلامیہ میں جو وجہ قتل بیان کی گئی وہ نئی ہرگز نہیں۔ ٹی ٹی پی اپنے قیام سے ہی حجامت اور داڑھی بنوانے کو غیرشرعی فعل قرار دیتی آئی ہے۔ ماضی میں سوات پر طالبان کے قبضے کے دنوں میں جنگجوئوں نے شہر میں قائم حماموں کے خاتمے کے لئے طاقت کا استعمال کیا اسی عرصے میں خیبر پختونخوا بھر میں قائم سی ڈیز کی دکانوں کو بھی ختم کرنے کا نوٹس دینے کے ساتھ متعدد مقامات پر سی ڈیز مارکیٹس کو جلایا بھی گیا۔ گزشتہ روز کے سانحہ میر علی کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ابتدائی اعترافی اعلامیہ کی گو ٹی ٹی پی کی جانب سے تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس واردات سے ٹی ٹی پی کا کوئی تعلق نہیں لیکن یہ امر بھی اپنی جگہ مبنی برحقیقت ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں ایک سے زائد مواقع پر ابتداء میںٹی ٹی پی نے دہشت گردی کے واقعہ کی ذمہساری قبول کی بعدازاں چند گھنٹوں یا ایک دن بعد اس اعترافی اعلامیہ کی تردید کردی۔ اعتراف اور تردید کے اس کھیل کے باوجود واقعات کی سنگینی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سانحہ میر علی کا ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر فعال رہنے والے انسانی حقوق کے بعض علمبرداران اور قوم پرست کے طورپر خودکو پیش کرنے و الے کچھ افراد کے اکائونٹس سے اس واقعہ کی ذمہ ادری کے حوالے سے تقریباً وہی باتیں کی جارہی ہیں جو کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے اپنے تردیدی بیان میں کہیں۔ سوشل میڈیا کے ان فعال اکائونٹس سے میر علی میں 6 سرائیکی محنت کشوں کے سفاکانہ قتل کا ذمہ دار ایجنسیوں کوٹھہراتے ہوئے اس واقعہ کو اسلام آباد میں جاری بلوچ دھرنے کا عوامی اثر زائل کرنے کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے پشتون علاقوں میں سرائیکی محنت کشوں کے سفاکانہ قتل کی یہ اولین واردات ہے۔ اس سے قبل بلوچستان کے بعض علاقوں میں سرائیکی وسیب کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش قتل کئے گئے اس سے قبل کی وارداتوں میں سرائیکی وسیب(جنوبی پنجاب)کے علاوہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں کے سفاکانہ قتل کی وارداتیں بھی ہوئیں۔ میر علی کے حالیہ سانحہ پر سرائیکی وسیب میں پایا جانے والا غم و غصہ فطری امر ہے۔ اپنے بچوں اور خاندان کے لئے رزق حاصل کرنے کے لئے گھروں سے سینکڑوں کلومیٹر دور جاکر محنت مشقت کرنے والے شہریوں کا بے دردی سے قتل اور پھر قتل کی ان وارداتوں کے جواز میں پیش کیا جانے والا مؤقف ہر دو قابل مذمت ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کوئی قوت سرائیکی وسیب کے باشندوں اور ہمسایہ اقوام میں براہ راست تصادم کرانے کے لئے سازشوں میں مصروف ہے۔ سانحہ میر علی کو اس تاثر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ بالفرض اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے تردیدی بیان کو درست بھی مان لیا جائے تو پھر بھی یہ سوال اہم ہے کہ اس بھیانک واردات کے پیچھے کون ہے۔ جہاں تک انسانی حقوق اور قوم پرستی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر متحرک اکائونٹس سے لگائے جانے والے الزامات کا تعلق ہے تو ان کی یقینا تحقیقات ہونی چاہئیں۔ تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ عوام کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کہیں الزامات کے ذریعے اصل مجرموں کی شناخت چھپانے کی کوشش تو نہیں کی جارہی ثانیا اگر خدانخواستہ الزام درست ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کا بادی النظر میں جو مقصد دیکھائی دیتا ہے وہ ملک میں جاری انتخابی سرگرمیوں میں عدم تحفظ کو ہوا دینا ہے۔ کوئی تو ایسی قوت ہے جو اس طرح کی وارداتوں کے ذریعے ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی ہے۔ اولاً مختلف قومیتوں کے درمیان نفرت و کشیدگی پیدا کرکے تصادم کا راستہ ہموار کرنا۔ ثانیاً ریاست کو کٹہرے میں لانا۔ ثالثاً اصل مجرموں کی پردہ پوشی کے لئے الزامات کی بارش کرنا۔ ان حالات میں یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ سانحہ میر علی کے ذمہ داروں کے تعین اورانہیں کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں۔ اس کی ایک صورت جوڈیشل انکوائری ہوسکتی ہے اس انکوائری میں مدد دینے کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دی جائے۔ گزشتہ روز میر علی بازار سے اغوا، قتل کئے جانے والے 6 محنت کشوں کے خاندانوں کی معاشی و سمااجی بدحالی کسی سے مخفی نہیں۔ علاقے میں معمولی سا روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ہی یہ محنت کش سینکڑوں کلو میٹر دور مزدوری کے لئے گئے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ان محنت کشوں کی نعشوں کو آبائی علاقوں میں بھجوانے کے لئے بندوبست نہیں کیا جاسکا کیونکہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ صورتحال بذات خود اپنی جگہ المیہ سے کم نہیں۔ مناسب ہوتا اگر مقتولین کے آبائی ضلع ڈیرہ غازی خان کے سردار تمن دار اور گودے ان مفلوک الحال خاندانوں کی اخلاقی و مالی مدد کے لئے پہل کرتے۔ افسوس کہ ان بڑے خاندانوں کے پاس نمودونمائش کے لئے تو بہت سرمایہ ہوتاہے سماجی خدمت کے لئے حوصلہ نہیں۔ سانحہ میر علی کے 6 مقتولین کے خاندانوں کی مدد کے لئے پنجاب کی صوبائی حکومت کے ساتھ وفاقی حکومت کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہاں ہم سرائیکی وسیب میں سماجی خدمت کے حوالے سے سرگرم تنظیموں بالخصوص سوجھل دھرتی واس، روٹری کلب، سویل اور شعور ترقیاتی تنظیم کے ذمہ داران کو آگے بڑھکر ان مظلوم و متاثرہ خاندانوں کی بھرپور مدد کرنی چاہیے۔ اس کیساتھ ساتھ سانحہ میر علی کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کوئی کسر نہیں اٹھارکھنی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  صحرا میں اذاں دے رہا ہوں