منظم گداگری

گداگری اب باعث مجبوری اختیار نہیں کی جاتی بلکہ اسے پیشہ بنا دیاگیا ہے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ان دنوں پیشہ ور گداگروں کی بھرمار ہے پیشہ ور گداگروں کے خواتین گروہ کے ساتھ چوری اور ڈکیتی کے لئے تیار مردوں کاگروہ بھی آس پاس ہی کہیں ہوتا ہے جو خواتین کی کال ملنے پر واردات کرنے پہنچ جاتے ہیں جس کے باعث گھروں میں بیٹھی خواتین اوربچے بھی محفوظ نہیں خاص طور پر جب مرد کام پر چلے جاتے ہیں اس وقت ٹولیوں کی صورت میں ان عناصر کے باعث ہر وقت دھڑکا لگا رہتا ہے ۔جو دروازہ اس وقت تک بجاتی ہیں جب تک ان کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت نہ کیا جائے ۔ صرف یہی نہیں بی آر ٹی سٹیشنز کی بیرونی راہداریوں میںبھی جگہ جگہ بھیک مانگنے والوں کی بھرمار نظر آتی ہے جن کے باعث آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہونا فطری امر ہے ۔ انسداد گداگری پرتوجہ اب سرکاری اداروں کی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں لیکن کم از کم ایسے پیشہ ور گروہوں کے خلاف ہی کارروائی کی جائے جو واضح طور پر چوری چکاری اور ڈکیتی تک کے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ان عناصر کی شناخت کوئی مسئلہ نہیںبلکہ یہ ایک مخصوص طرز کے غیرمقامی لوگ ہوتے ہیں جن کی شناخت با آسانی ہوسکتی ہے کم از کم ان ٹولیوں کی صورت میں پھرنے والے گداگروں کوہرتھانے کی حدود سے متعلقہ پولیس نکالنے کے احکامات دے کر اس پر عملدرآمد کروایا جائے تو بھی شہری بڑی حد تک سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ان عناصر کے خلاف حکومتی اداروں کو متحرک کئے بغیر مقاصد کا حصول ممکن نہیں ان عناصرکی موجودگی سے مختلف معاشرتی برائیوں کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اوراس کے معاشرے پربرے ا ثرات مرتب ہوتے ہیں ان عناصرکی دیکھا دیکھی گداگری کی طرف دوسروں کا بھی متوجہ ہونا بعید نہیں ان عناصر کو مزید ڈھیل نہیں ملنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  گیس چوری اور محکمے کی بے خبری