نئی حکومت کے مسائل

مُلک بھر میں ایک دن بعد عام انتخابات کا انعقاد ہوچکا ۔ جس میں عوام کی اکثریت نئی مرکز ی و صوبائی حکومتوں کے لیے اپنے نمائندوں کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا ۔ اس بار انتخابی مہم میں امید واروں اور ووٹرز کا روایتی جوش و خروش بہت کم تھا ، پُر اسرار خاموشی محسوس ہوتی رہی ۔ ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین چار سال سے مُلک میں سیاسی و آئینی بحران اور سیاسی محاذ آرائی نے بڑھتے بڑھتے عوام کو مہلک درجے کی انتظامی اور معاشی ابتری میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ریاست کے حالا ت میں بہتری نہیں ہو رہی اور اسی اذیت ناک کیفیت میں عوام اپنے آپ کو ایک بند گلی میں کھڑا دیکھتے ہیں ۔ اہل فکر اور سنجیدہ طبقے یہ سمجھتے ہیں کہ قومی انتخابات اور نئی قیادت سے ممکن ہو پائے کہ ریاست اور عوام کو اس بڑھتے بحران سے نکال سکیں ۔اب اہل فکر کے ساتھ ساتھ عوام کی اکثریت بھی از خود رائے عامہ کی تشکیل کا بڑا ذریعہ بن چکی ہے ، حالات حاضرہ کو خوب سمجھنے لگے ہیں اور آئین و قانون کی بالادستی کے مقابلے میں ” لیول پلینگ فیلڈ ” کی تشریح اور تجزیہ بھی اپنے طور پہ خوب کر رہے ہیں ۔ وہ انتخابات کے حوالے سے جھوٹ سچ ، پکڑ دھکڑ ، خوف و ہراس اور مار دھاڑ کو بھی سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابی مقابلہ پہ کیسے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ دنیا کے کسی ملک میں انتخابات کو اتنا مسئلہ نہیں بنایا جاتا جیسا طرز عمل پاکستان میں اپنایاجارہا ہوتا ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر آئینی و قانونی وجوہات کے بغیر پابندی عائد کرنا غیر جمہوری عمل ہے ، یوں عوام میں مایوسی پھیلتی ہے اور جمہوری اقدار کے لیے یہ عمل انتہائی نقصان دہ ہے ۔ تاہم ملک میں سیاسی و معاشی استحکام کی راہ ہموار کرنے کے لیے شفاف انتخابات کا انعقاد ضروری تھا تا کہ نئی قیادت ان مشکلات پر جلد قابوپا سکے۔
پاکستان کو اس وقت جن نامساعد حالات اور چیلنجز کا سامنا ہے، اقتدار نئی حکومت کے لئے پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار ہوگی۔ درپیش قومی مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے انتخابی مہم کے دوران کئے گئے پرکشش دعوے اور وعدے کافی نہیں،انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے نہایت سنجیدہ اقدامات اور سخت محنت کی ضرورت ہوگی۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ معیشت کو قرار دیا ہے جو بلاشبہ تمام مسائل کی بنیاد ہے۔معاشی مشکلات کے ساتھ دہشت گردی اور عدم سیاسی استحکام نے بھی ریاست کو مشکل میں ڈال رکھا ہے ۔ اس لیے نئی قیادت کو ایک کڑے امتحان کا سامنا ہوگا ۔ اول تو ہمارے ہاں نظریاتی سوچ باقی نہیں رہی ، یہی وجہ ہے کہ ہم نظریاتی اعتبار سے کسی بھی سیاسی جماعت میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے کہ یہاں محج اقتدار کی رسہ کشی ہے ۔ دوم یہ کہ کسی بھی سیاسی جماعت نے ایسا منشور پیش نہیں کیا جو زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے مُلکی ترقی کا ضامن ہو اور جمہوری تقاضوں کا آئینہ دار ہو ۔ نئی قیادت کے لیے خارجہ پالیسی پر خصوصی توجہ دینا لازمی ہو گا ۔ امریکا اپنی اہمیت و وقعت قائم رکھنے اور بچانے کے لیے زیر نگرانی چھوٹے ممالک کو اپنے قابو میں رکھنے کو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ پہلے ان پر قرضوں کا بوجھ ڈالتا ہے پھر بھی اگر قابو میں نہ آئیں تو اسلحہ کے زور پر انہیں مجبور و بے بس کردیتا ہے۔ پاکستان جو خطے کا اہم ترین ملک ہے اسکی سرحدیں بھارت، چین، روس، افغانستان، ایران سے ملتی ہیں، اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے امریکا نے اس کو اپنے کیمپ میں شامل کیا تھا۔ اب تک اس نے خوب فائدہ بھی حاصل کیا مگر اس کے باوجود امریکی حکام کی تسلی نہیں ہو پا رہی کہ پاکستان کو کیسے قابو میں رکھ کراپنے مفادات پورے کیے جائیں۔ آئی ایم ایف کی گرفت میں جکڑے ہوئے ہیں جس پر بہت سے لوگ سوال اُٹھا رہے ہیں مگر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی طرف جانا ضروری تھا اور اگر بہتری آئے تب بھی آئی ایم ایف سے ربط رکھنا چاہیے کہ ریاست اور پوری قوم کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے ۔ اسی لیے عوام کا بڑا مطالبہ بھی یہی ہے کہ ایسی قیادت برسر اقتدار آئے جو قومی معیشت کو مستحکم کر سکے ۔ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اُمیدوار اپنے انتخابی جلسوں میں مہنگائی سے پریشان عوام کی بے بسی کا رونا روتے رہے اور معیشت کی بہتری کو ہی اپنی پہلی ترجیح قراردیتے رہے لیکن انہیں معیشت کی بحالی اور استحکام کے ایسے منصوبہ پر عمل کرنا ہو گا جس کے فوائد عام آدمی تک کم سے کم وقت میں پہنچنے چاہیے ۔ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سے اس سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی ترقی کے فوائد مُلک میں صرف دو چار فیصد افراد تک محدود رہتے ہیں جبکہ ملک کی بیشتر آبادی کے شب و روز میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آتی۔ جاگیرداری اور سرمایہ داری نظام کے منفی اثرات کاسدباب نہایت ضروری ہے اور اسی طرح سرمایہ ، صنعت ، تجارت اور جائیداد کے حوالے سے اصلاحات کا وضح کرنا بھی لازم ہے ۔ معیشت اور آئینی اصلاحات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے انتخابی وعدے حقیقت سے قدرے دور معلوم ہوتے ہیں جسے دعوے باندھنے والے بھی شاید بہت جلد مکمل نہ کر سکیں ۔ معیشت کے تجزیہ نگار اور ماہرین کی ایک اکثریت ہر روز معاشی حالات کو بہتر کرنے کے نسخے بتا رہی ہوتی ہے مگر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ۔ ہمیں ایک ایسی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دینی چاہئے جو مخصوص طبقات کی بجائے پوری قوم کی خوشحالی کا ذریعہ بنے۔ سرمایہ کاری سہولت کونسل نے غیر مُلکی سرمایہ کاری کے لیے ٹھوس اقدامات شروع کیے ہیں ، متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ اربوں ڈالر کی مفاہمتی منظوری بھی ہو چکی ہے جو نئی حکومت کے لیے یقینا خوش آئند ہے ۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور ساتھ ہی امن و امان کی صورتحال بھی دور اندیشی سے مگر فیصلہ کن انداز میں اقدامات کی متقاضی ہے۔

مزید پڑھیں:  سنہری موقع سے ذمہ داری کے ساتھ استفادے کی ضرورت