شرک کی دہلیز

مالک کائنات کے علاوہ پوری کائنات میں اور کوئی ایسا نہیں جس کی پرستش روا ہو ۔ لیکن انسان کبھی شرک کامرتکب ہوا توکبھی کسی ایسی چیز کی پرستش کی غلطی کر بیٹھا یہاں تک کہ معبود تک بنالیا جس کے بارے میں قرآن میں نہایت دل نشین انداز میں کہا گیا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز اڑا لے جائے تو وہ اس کو روکنے اور اس سے وہ چیز چھیننے کے قابل نہیں طالب اور مطلوب کی کمزوری اور بے چارگی کو اس سے بڑھ کر وضاحت نہیں ہو سکتی شخصیت پرستی ہر معاشرے اور ہر دور میں کسی نہ کسی طرح سے رہی آئی ہے مذہبی اور دینی شخصیات کو ایک خاص درجے سے بڑھ کر احترام دیا جائے تو یہ بھی شخصیت پرستی ہی ہوئی مگر ہمارا آج کا موضوع ملکی سیاست میں شخصیت پرستی کا ہے اس کے نتائج و عواقب اور کمزوریوں و خرابیوںکا بعد میں تذکرہ کرتے ہیں لیکن ایک سوال جومیری ذہن میں کچھ دنوں سے کلبلا رہا ہے وہ یہ کہ کیا ہم جتنی محبت اپنے محبوب محبوبہ سیاسی شخصیات اور پارٹی لیڈر سے کرتے ہیں کیا ہم اس قدر محبت اپنے والدین بہن بھائیوں عزیز واقارب سے بھی کرتے ہیں کیا ہم واقعی محبت کرنے والی شخصیت اور محبت کے جذبات رکھنے والے ہیں یا پھر ہم جذباتی طور پر گمراہی کا شکار ہیں اس سوال کا جواب ہر کوئی اپنے آپ ہی کو دے سکتا ہے میں اس کا ایک اجمالی جواب ہی دے سکتی ہوں ایک اجمالی جائزہ ہی لیا جا سکتا ہے جس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ ایسا نہیں بلکہ من حیث المجموع معاشرے سے پیار و محبت انسیت اور خلوص کا جذبہ مفقود ہو چکا ہے اس کی جگہ نفرت اور بیزاری نے لے رکھی ہے کچھ دور بدلا ہے کچھ اقدار بد ل گئے ہیں اور کچھ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی مصروفیات نے تعلقات اور رشتوں میں دراڑیں ڈال دی ہے کچھ زمانے اورحالات کے باعث مایوسیوں ، تنہائی اور افسردگی میں اضافہ ہوا ہے کچھ معاملات اور معاملات کی تبدیلی کے باعث زندگی تیز رفتار ہو گئی ہے اور سرعت رفتار کایہ عالم کہ آج خود اپنی باگیں بھی اپنے قابو میں نہیں بس صبح و شام ہوتی ہے اور سرپٹ دوڑے جانے اور رفتار بڑھاتے جانے کا عالم ہے ایک ایسی سبک رفتار زندگی کے ایام کہ کسی کے پاس دوسرے کیلئے وقت کیاہو خود ان کے اپنے پاس اپنے لئے وقت نہیں وقت کی کمی کی شکایت اور عدم توجہی کاعالم یہ ہوگیا ہے کہ حشر بپا ہونے سے قبل میدان حشر کا سا عالم بن گیا ہے ہر کوئی اپنی ذات ہی کا ہو کر رہ گیا ہے باقی سب سے لاتعلق بیزار اور سطحی قسم کے تعلقات ، سماج کا یہ رنگ معاشرے کے یہ ڈھنگ اس کے نتائج کیا نکلیں گے کسی کو بھی اندازہ نہیں سوائے اس کے کہ تاریخ کا مطالعہ اور مشاہدہ ہمیں بتاتا ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ کسی خاص سمت اور شعبے میں کمال درجے یا پھر انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو وہ معاشرہ باقی نہیں رہتا آپ قرآن عظیم کا مطالعہ فرمائیں کس طرح قوم یہود ،عاد و ثمود ،قوم لوط عزیزان مصر ، قارون ، فراعنہ وقت یکے بعد دیگرے نہ رہے حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں تو قدرت نے پوری کرہ ارض کو اس طرح غرق آب کر دیا کہ سوائے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے سواروں جس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہر نوع کے جانوروں کے جوڑے بھی تھے بس وہی باقی بچے باقی ساری خلقت تباہ ہو گئی کرہ ارض سے حیات انسانی حشرات الارض اور ہر جاندار چیز سبھی کچھ فنا ہوگئی نوح علیہ السلام کی کشتی کے باقیات جودی کے پہاڑ کی چوٹی پر سے ملے قدرت نے اگر تباہ نہ کیاتو روایت میں آتا ہے وہ ایک ضعیف العمر خاتون تھی جوجب بھی حضرت نوح علیہ السلام کوکشتی بناتے دیکھتی تو عرض کرتی کہ جب بھی وقت آیا تو وہ ان کو بھی ساتھ لے جانا نہ بھولیں مگر حضرت نوح کو یاد نہ رہا تو مالک کائنات نے اپنے محبوب بندے کے وعدے کی لاج رکھ کر ان کوایسا محفوظ کیا کہ پوری زمین ڈوب گئی مگراس خاتون کی زندگی اور معمولات پر فرق پڑناتو درکنار ان کو معلوم بھی نہ ہوسکا کہ زمین پر کیا قیامت گزر گئی قرآن عظیم میں خود مالک کائنات کافرمان ہے کہ تم میں کم ہی لوگ عبرت حاصل کرتے ہو واقعی ہی انسان خسارے اور گمراہی کا شکار رہا ہے اور دور حاضر کو ظلمت کدہ بنا ہوا ہے اس قدر تمہید طولانی اس لئے باندھنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ سب حالات کاتھوڑا بہت بلکہ کافی علم ہونے کے باوجود آج ہم اپنے رب العالمین کی طرف متوجہ نہیں ہوتے نعوذ باللہ ہم نے اپنی خواہشات کو اپنا رب بنا لیا ہے ہماری محبت کا وہ درجہ جو رب کریم ہی کے لئے زیبا و روا ہے اس میں ہم قولی وعقلی طور پر تو کسی کو شریک ٹھہرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے لیکن عملی طور پر ہر کسی کو ایک لمحہ ٹھہر کر سوچنا چاہئے کہ اس کی ترجیح دولت روپیہ پیسے ،اولاد ، بیوی، کارخانے ، زراعت ، کاروبار اور اس طرح کی دیگر مادی اور دنیاوی چیزیں توسب سے محبوب تو نہیں کیا ہم اپنے رب کی رضا اور فرمان کا ہر لمحہ خیال رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرکے عملی طور پر محبت کا اظہار کرتے ہیں یا پھر دعوے کی حد تک ہم رب العالمین کے ماننے والے اور ان سے محبت کرنے والے ہیںہمارے رسوم و رواج ہماری عادات ، شادی بیاہ ، میت و جنازہ غرض کوئی ایسا شعبہ بچ گیا ہے جہاں ہم سوفیصد دین کو مقدم رکھنے کی ضرورت عملی طور پرمحسوس کرتے ہیں یا پھر ہماری ان ترجیحات میں اولیت دنیا داری و سیاست اور سیاسی شخصیات کی تقلید و پیروی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے کبھی کبھی میں یہ سوچنے لگتی ہوں کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں سیاست اور خاص طور پر سیاسی شخصیات کی پیروکاری کہیں ہمیں لے نہ ڈوبے جہاں جائو اسی کا چرچا ہے اور لوگ اپنی اپنی محبوب سیاسی شخصیات کی مدح سرائی اور ان سے محبت کا اس قدراندھا اظہار کرنے لگ جاتے ہیں کہ ڈر لگنے لگتا ہے میں اس نکتے میں زیادہ آگے نہیں جائوں گی البتہ صرف یہ ضرور کہوں گی کہ وہ نفس کی پیروی اور شخصیات سے محبت کے پیمانے کو کبھی پرکھیں تو ضرور قرآن وحدیث کے مطابق اپنے کردار و عمل پر غور ضرور فرمائیں اور اس امر کا جائزہ ضرور لیں کہ قرآن عظیم اس بارے میں کیا کہتا ہے اور ماضی کی قوموں اور معاشرے کی جومثالیں دے کر انسان کو جو ہدایات دی گئی ہوتی ہیں کہیں ہمارا طرزعمل بھی اسی دائرے میں تو نہیں آتا ، آپ کو اگر درس قرآن کے محافل میں جانے کا موقع نہیں ملتا یا آپ ایسا نہیں کر پاتے تو یو ٹیوب پر اور انٹرنیٹ پر بے شمار ایسے دروس با آسانی مل جائیں گے جن کو پڑھ کر اور سن کر آپ خود اپنے طرز عمل کو اس کسوٹی پر پرکھیں اورخود ہی اپنا احتساب کریںکہ کہیں شخصیت پرستی میں آپ گمراہی کے دائرے میںتو نہیں داخل ہوئے ہیں خود ہی اپنا جائزہ لیں کہ آپ اپنے سیاسی قائد کے فرمان کے حوالے سے کس قدرجذباتی ہوتے یں اور اصل و حقیقی قائد و پیشوا اور کتاب ہدایت کی تعلیمات و دروس کے حوالے سے آپ کا طرز عمل اور جذبات کیا ہیں اگر آپ اندھی تقلید محسوس کریں تو آج اسی وقت اصلاح کی طرف متوجہ ہوں حق کے متلاشی ہوںگے تو حق و باطل تمیز و پہچان آسمان والا خودہی کرا دیتا ہے آپ کوبس متوجہ ہونے اور خود کو متوجہ کرنے کی ضرورت ہے کوئی بھی انسان کوئی بھی رہنما اکمل اور کامل ہو ہی نہیں سکتا سارے ہی خرابیوں کا مجموعہ ہیں رشد و ہدایت آسمانی ہے اور کامل و اکمل شخصیت بھی وہی ہے جس پر نبوت کاخاتمہ ہوا ہے اس کے بعد کتاب و سنت سے ہم بطور مسلمان رہنمائی لینے اور حتی المقدور عمل کرنے کے پابند اور ذمہ دار ہیں کسی دینی شخصیت اور کسی سیاسی قائد کسی کے لئے بھی احترام کے جذبات ضرور رکھیں لیکن کسوٹی وہ رکھیں جورکھنی چاہئے ورنہ گمراہی و ضلالت کے خطرے سے خود کو بچا نہیں پائیں گے دنیا میں کیا ملنا نہ ملنا آخرت خدانخواستہ دائو پرلگ جائے گی ایک گونہ احتیاط اور بس۔

مزید پڑھیں:  پہلے تولو پھر بولو