”شہرت کا نشہ ایک خطرناک بیماری”

دور حاضر میں ہمیں آئے دن اس طرح کے واقعات سننے کو ملتے ہیں جس میں لوگ بس نام کمانا چاہتے ہیں ،چاہے اچھا ہو یا برا۔یاد رہے منشیات کا عادی علاج سے ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن شہرت کا بھوکا نہیں ۔یہ ایک مقناطیسی پلیٹ فارم ہے اگر گوگل پر غلطی سے بھی کچھ غلط سرچ کردیا جائے یا آپس میں غلط گفتگو کیا جائے تو یہ موبائل یا بالفاظِ دیگر مصنوعی ذہانت (artificial intelligence)فحاش کے وہ اڈے کھل کر سامنے آئیں گے کہ انسان خود اپنے آپ سے شرما جائے ۔نائٹ پیکیجز دے کر ہماری نوجوان نسل کو جس بے حیائی کی دلدل میں دھنسایا جارہاہے اس کے خوفناک نتائج کی ذمہ داری ایک دن خود ہمیں ہی اٹھانی پڑے گی ۔بہت سارے لوگ وائرل ہونے کے چکر میں سیلفیاں لیتے ہوئے موت کی آغوش میں جاچکے ہیں ۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں سستی شہرت کا شوق ہوتا ہے وہ نازیبا اور اخلاقیات سے گری ہوئی حرکتیں کرکے ویڈیوز بناتے ہیں ۔پہلے پہل لفظ سکینڈل فلمی ستاروں سے منسوب کیا جاتا تھا،اب ہر کوئی تقریبا اس میں ملوث ہے ۔ ہائی ریٹنگ کے چکروں میں بہت سارے یوٹیوبرز جو صحافت کی "ا ب پ” نہیں جانتے خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں لیکن یاد رہے یہ معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے اور کسی کو بھی گمراہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے ۔ضروری نہیں کہ سارے لوگ اس میں ملوث ہوں ،کچھ لوگ اچھا کانٹینٹ بناکر معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لا رہے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔پاکستان میں سوشل میڈیا کا زیادہ رحجان 2010کے بعد سے تیز ہوا، اور یہ تقریبا ہر عمر کے لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے ۔میری ذاتی رائے یہ ہے کہ سستی شہرت یا وائرل ہونے کے غیر اخلاقی رویوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بنیادی وجہ کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی کا نہ ہونا ہے ۔بطور ذمہ دار شہری ہمیں ہر وقت چوکنا رہنا ہوگا ،ہر گھر کے سربراہ کو آنکھیں کھلی رکھنی ہوگی کہ اس کی زیرِ پرورش نسل نو بگڑنے نہ پائے ۔ترقی یافتہ ممالک میں چونکہ تعلیمی امور میں ایک بڑا دخل والدین کا بھی ہوتا ہے جہاں صرف اساتذہ نہیں بلکہ والدین بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انٹرنیٹ وسوشل میڈیا کے ضروری اور موثر طریقہ استعمال سے اپنی اولاد کو نہ صرف تعلیم مہیا کرتے ہیں بلکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ایج ریٹنگ کے مطابق دکھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تو آج کل سوشل میڈیا پر عملی ٹولز، جھوٹ اور سچ کی آمیزش ، مبالغہ آرائی،بے جا نمود و نمائش،دین سے دوری اور والدین کی اس سب سے لاپرواہی ایک معمول بن چکا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں سائنس وتعمیری کارناموں کے بجائے تخریبی واقعات زیادہ رونما ہوئے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو گیمز کھیلنے کے لیے موبائل دے دیتے ہیں یہ معلومات لئے بغیر کہ آج کل آن لائن گیمز بھی سوشل میڈیا کا ہی حصہ ہیں جن میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوکر کھیلتے ہیں۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہوئے والدین اور بہن بھائیوں سے لاتعلق،انہیں کھانے پینے کی کوئی فکر ہوتی ہے نہ پڑھائی کی اور نہ ہی خاندانی تقریبات میں شرکت سے کوئی سروکار آج کل یقینا پب جی گیم اس جنگ کا حصہ ہے ۔اس ان دیکھی بات چیت نے آج ادب و لحاظ کے سارے بندھن توڑ ڈالے ہیں۔ مجھے بچپن کا زمانہ یاد آیا جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو سارے بچے روز شام کو گلیوں میں رج کر سائیکلیں چلاتے تھے ،بھاگتے دوڑتے تھے ، کرکٹ کھیلتے تھے کوئی نہ کوئی مشغلہ ایسا ہوتا تھا کہ رج کے پسینہ آتا تھا اور رات کو نہا کر سونا پڑتا تھا ۔ 2010سے 2020تک میں خود بھی پوری شدت سے اسی مسئلے کا شکار تھا۔سمجھ نہیں آتا تھا کہ یار دنیا میں دوسرے لوگ کیسے اتنا سارا کام کر لیتے ہیں۔ ایک دن موبائل کی سکرین ٹوٹ گئی غصے میں آ کر فیصلہ کیا کہ اب سمارٹ فون نہیں لینا،چھوٹا سا بٹنوں والا فون لیا اور دنیا بدل گئی.چوبیس گھنٹے کی ٹوں ٹوں ختم ہوچکی ہے۔رات کو سونے سے پہلے موبائل اور پاور بینک چارج کرنے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی ۔ہر ضروری کام کے لیے بہت سا وقت ہوتا ہے ۔ کوئی ضروری کام نہ ہو تو لکھنے پڑھنے ،بچوں سے گپ شپ کرنے یا ایویں پیدل گھومنے کے لیے بھی ڈھیر سارا ٹائم مل جاتا ہے ۔ ،یقین کریں اب کوئی منظر آچھا لگے تو بجائے کیمرہ نکالنے کے اسے آنکھوں میں محفوظ کرنا زیادہ بہتر لگتا ہے ۔گزشتہ دنوں ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے گردن میں کپڑے کا موٹا والا بیلٹ لگا ہوا تھا وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ رات کو بستر پر لیٹ کر موبائل دیکھنے کی وجہ سے یہ مسلہ پیدا ہوا ہے طبی اصطلاح میں اسے "ٹیکسٹ نیک سینڈ روم”کہا جاتا ہے ۔ آپ بھی ایک کام کریں اپنے موبائل سے فیس بک ،انسٹاگرام ، یوٹیوب اور ٹوئٹر کی ایپس ڈیلیٹ کریں یقین کریں کائنات کا سکون آپنے اندر اترتا محسوس کرینگے ۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے جو کہ کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے جس کے مقاصد کے حصول میں ایک بہترین باعمل مسلمان تیار کرنا ہے اور اس مقصد کے حصول میں تاحال ملکی انتظامیہ ناکام نظر آتی ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں ان وجوہات میں ایک بڑی اور اہم وجہ تاحال سوشل میڈیا کے ضروری اور موثر استعمال کی آگاہی سے نابلد ہونا ہے ۔یہاں والدین اور اساتذہ بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان نہ صرف اخلاقی گراوٹ بلکہ جرائم کا ایک گڑھ بن چکا ہے ۔سوشل میڈیا برائی اور اچھائی کا مشترکہ مجموعہ ہے لہذا اس کا استعمال احتیاط سے کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔یہ فیصلہ آب آپ پر منحصر ہے کہ آیا اس کے مثبت استعمال سے ہم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنوار لیں یا دونوں جہانوں کی ناکامی آپنے سر لے لیں۔ سوشل میڈیا کا کم سے کم استعمال اور اس کے مثبت استعمال کے لیے باقاعدہ ایک مہم کے ضرورت ہے جس میں ہر اس فرد کو حصہ لینا چاہیے جو خود کو سماج کا زمہ دار فرد سمجھتا ہو۔اس مہم کا آغاز انفرادی طور پر ہونا چاہیے کیونکہ انفرادی کامیابی ہی اجتماعی کامیابی کی بنیاد بنتی ہے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟