plasma111

پلازمہ تھراپی سے کورونا کا علاج کتنے فیصد کامیاب ہوتا ہے ؟

ویب ڈسک : پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے علاج کیلئے پلازمہ تھراپی سے تجربات ہو رہے ہیں، پہلا تجربہ حیدر آباد کے ایک عمر رسیدہ شخص میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد ان کی حالت مسلسل خراب ہونے کے بعد کیا، جسکا رزلٹ ابھی مکمل نہیں ایا ہے جبکہ مریض کی حالت پہلے سے پہتر پتائی جا رہی ہے،

پیسِو امیونائزیشن کے اسی طریقہ علاج کو ’پلازما تھیراپی‘ یا کونوالیسنٹ پلازما کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں کووڈ 19 کے مریضوں کے علاج کے لیے یہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے جس کی کامیابی سے متعلق تاحال کوئی حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج پلازمہ تھراپی سے آزمائشی بنیادوں پر کیا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلازمہ تھراپی کرونا وائرس سے متاثرہ ہر مریض کے لیے موثر نہیں ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پلازمہ تھراپی کے ذریعے کرونا وائرس سے متاثرہ صرف ان مریضوں کا علاج ممکن ہے جو ‘سیویئر اسٹیج’ پر ہوں۔ جو مریض اس وبا سے ‘کریٹیکل اسٹیج’ پر پہنچ چکے ہوں پلازمہ تھراپی کے ذریعے ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔

پلازمہ تھراپی کے لیے درکار پلازمہ اور اس میں موجود ‘اینٹی باڈیز’ سے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لازمی نہیں کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے ہر فرد سے حاصل کردہ پلازمہ میں اینٹی باڈیز موجود ہوں۔ تاہم پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو کسی قسم کے خطرات لاحق نہیں ہوتے اور یہ عمل 30 سے 45 منٹ میں مکمل ہو جاتا ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پلازمہ تھراپی کے ذریعے کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے آزمائشی بنیادوں پر علاج کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آ رہے ہیں۔

پلازمہ تھراپی ہے کیا؟

پلازمہ تھراپی کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ‘پیسیو امیونائزیشن’ کا طریقۂ علاج ہے جو 18ویں صدی کے آخر میں ایجاد ہوا تھا۔ اس میں اینٹی باڈیز کے ذریعے علاج کیا جاتا ہے۔

اینٹی باڈیز کیا ہوتی ہیں؟

ڈاکٹرز کے مطابق انسانی جسم کے اندر جب باہر سے جراثیم داخل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے انسان کی قوتِ مدافعت اس کی تشخیص کرتی ہے۔ پھر قوتِ مدافعت ان جراثیم کے خلاف مالیکیولز بناتی ہے جو ان جراثیم سے لڑتے ہیں۔ ان مالیکیولز کو ‘اینٹی باڈیز’ کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹرزکا کہنا تھا کہ انسانی جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز اسی جرثومے کے خلاف استعمال کی جاتی ہیں جن جراثیم کے خلاف وہ اینٹی باڈیز بنی ہوتی ہیں۔

کرونا وائرس کے مریضوں کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب کوئی مریض کرونا سے صحت یاب ہو جاتا ہے تو اس کے خون میں ‘اینٹی باڈیز’ موجود ہوتی ہیں۔

ان کے بقول صحت یاب ہونے والے مریض کا پلازمہ جب وائرس سے متاثرہ کسی دوسرے شخص کو لگایا جاتا ہے تو اس پلازمہ میں موجود ‘اینٹی باڈیز’ مریض کے جسم میں وائرس کی تشخیص کرتی ہیں اور قوتِ مدافعت کے باقی اجزا کرونا وائرس کو تلف کر دیتے ہیں۔

پلازمہ اور خون میں کیا فرق ہے؟

ڈاکٹرز نے خون اور پلازمہ کا فرق بتاتے ہوئے کہا کہ لیبارٹریوں میں جب خون کا نمونہ لیا جاتا ہے تو اس کا نچلا حصہ سرخی مائل ہوتا ہے جب کہ اوپر والا حصہ شفاف پانی نما ہوتا ہے۔

ان کے بقول پلازمہ خون کا پانی نما حصہ ہوتا ہے جب کہ نچلے حصے میں ‘سیلز’ ہوتے ہیں۔

خون سے پلازمہ کیسے نکالا جاتا ہے؟

ڈاکٹرزنے بتایا کہ جیسے خون کا نمونہ حاصل کرنے کے لیے سوئی لگائی جاتی ہے، اسی طرح سوئی کے ذریعے خون ایک مشین میں لگائی گئی تھیلی میں جاتا ہے جس کے بعد وہ مشین خون سے پلازمہ الگ کر کے دوسری تھیلی میں منتقل کر دیتی ہے اور ‘سیلز’ دوبارہ پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کے جسم میں چلے جاتے ہیں۔

ڈاکٹرز کے بقول اس عمل میں استعمال ہونے والی کِٹ ڈسپوزِبل ہوتی ہے اور پلازمہ حاصل کرنے کے عمل میں 30 سے 45 منٹ کا وقت لگتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پلازمہ عطیہ کرنے والا شخص ایک ہفتے بعد دوبارہ پلازمہ عطیہ کر سکتا ہے۔

کیا ہر مریض کا علاج پلازمہ تھراپی سے ممکن ہے؟

ڈاکٹرز نے اس حوالے سے کہا کہ پلازمہ تھراپی کے ذریعے کرونا سے متاثرہ صرف ان مریضوں کا علاج کیا جا رہا ہے جو ‘سیویئر اسٹیج’ پر ہوں یعنی وہ اسٹیج جس میں مریض کو آکسیجن لگائی گئی ہو۔ لیکن جن مریضوں کی حالت نازک یعنی ‘کریٹیکل اسٹیج’ ہو ان کا علاج پلازمہ تھراپی سے نہیں ہو سکتا۔

ان کے بقول جو مریض شدید بیماری کے اسٹیج پر نہ ہوں ان کا علاج بھی پلازمہ تھراپی سے نہیں کیا جاتا۔

ڈاکٹرز کے مطابق مریض کی حالت کے پیشِ نظر پلازمہ تھراپی کے ذریعے علاج کا فیصلہ ڈاکٹر، مریض کی علامات کی نوعیت دیکھ کر کرتا ہے۔

ڈاکٹرز نے مزید کہا کہ پلازمہ تھراپی صرف ایک طریقہ علاج ہے۔ اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ اس طریقے سے کرونا سے متاثرہ مریض کی جان بچائی جا سکتی ہے یا نہیں۔

کرونا سے صحت یاب ہر فرد پلازمہ عطیہ کر سکتا ہے؟

ڈاکٹرز کے مطابق پلازمہ عطیہ کرنے کی چند شرائط ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ لازمی ہے کہ پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو کرونا وائرس سے صحت یاب ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس شخص کے خون میں اینٹی باڈیز موجود ہوں۔

ڈاکٹرز کے بقول ان کے پاس کرونا سے صحت یاب ہونے والے کئی مریض ایسے بھی آئے ہیں جو پلازمہ عطیہ کرنا چاہتے تھے لیکن ان کے جسم میں اینٹی باڈیز موجود ہی نہیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ پلازمہ عطیہ کرنے والے مریض کے خون میں دیگر مہلک امراض مثلاً ایڈز، ملیریا اور ہیپاٹائٹس کے جراثیم موجود نہ ہوں۔

پلازمہ کرونا کے کسی بھی مریض کو لگ سکتا ہے؟

ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ اب تک تو کرونا سے صحت یاب ہونے والے کسی بھی شخص کا پلازمہ دوسرے مریض کے علاج کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ لیکن کوشش یہ کی جاتی ہے کہ جس بلڈ گروپ کا پلازمہ ہو، وہ اسی بلڈ گروپ کے مریض کو لگایا جائے۔

پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو کیا خطرات لاحق ہوتے ہیں؟

ڈاکٹر ز نے اس بارے میں کہا کہ اگر یہ عمل پیشہ ورانہ طریقے سے درست انجام دیا جائے تو پلازمہ عطیہ کرنے والے شخص کو صرف سوئی چبھنے کی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے، اس کے علاوہ کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

کتنے مریضوں کا علاج پلازمہ تھراپی سے ہو سکتا ہے؟

ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کرونا وائرس کے صحت یاب مریضوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ لہٰذا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے پاکستان کے پاس پلازمہ دینے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

ان کے بقول اگر صحت یاب مریض پلازمہ عطیہ کریں تو کافی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔