p613 199

پی ڈی ایم کا حکومت پر دبائو بڑھانے کی حکمت عملی

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پکڑدھکڑ، مقدمات اورراستے روکنے کی تمام ترکوششوں کے باوجود ملتان کے گھنٹہ گھر چوک پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ایک بڑا جلسہ کیا۔ پی ڈی ایم کی قیادت نے ملتان میں تشدد کیخلاف جمعہ اور اتوار کو پورے ملک میں احتجاج کا اعلان کردیا ہے جبکہ13دسمبرکو لاہور میں ٹاکراہوگا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسے کی ناٹک سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں، جتنی تاریخیں دیدیں موجودہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ پشاور میں جلسے سے قبل رکاوٹیں کھڑی کر کے اور عین وقت پر آزادانہ جلسے کا موقع دینے کا حکومتی حربہ ملتان کے جلسے میں کامیاب ثابت نہ ہوا کیونکہ پشاور کے جلسے میں زیادہ فاصلے سے قائدین جلوس لیکر جلسہ گاہ نہیں لائے بلکہ پشاور جلسے کا سارا دار ومدار مقامی جماعتوں کی قیادت پر تھا جبکہ اس کے برعکس ملتان کے جلسے کیلئے جہاں پیپلزپارٹی نے بڑی تیاریاں کی تھیں وہاں مسلم لیگ(ن) کی سینئر نائب صدر اور دیگر رہنمائوں نے جلسے میں شرکت کیلئے موقع پر کارکن ساتھ لے گئے اور سندھ سے کارکنوں نے بڑی تعداد میں جلسے میں شرکت کی جبکہ جے یو آئی کے قائد کیساتھ بھی بڑی تعداد میں کارکن آئے۔پنجاب میں صوبائی حکومت نے گرفتاریاں اور کنٹینر کھڑی کر کے جلسے کو ناممکن بنانے کی بڑی زور وشور سے تیاریاں تو کیں جس سے پورے ملک میں اور میڈیا میں جلسے کے حوالے سے ایک شور برپا ہوا اور حزب اختلاف کی جانب سے ایک روز قبل بزور قوت جلسہ کرنے کی دھمکی اور حکومتی اجازت نہ ملنے کے باوجود ریاست کی رٹ کو ناکام بنانے کا چیلنج پورا کیا۔ حکومت کی یہ مصلحت اس کی کمزوری ٹھہرائی گئی کیونکہ ریاست ماتم نہیں کرتی بلکہ حکومتی رٹ پر ہر قیمت پر عملدرآمد کراتی ہے۔ پنجاب حکومت اگر درست حکمت عملی اختیار کرتی اور یا جلسے پرپابندی لگانے اور گرفتاریوں سے گریز کرتی یا پھر تھوڑی بہت مزاحمت کی جاتی اور حزب اختلاف کی دھمکیوں میں نہ آتی تو بہتر ہوتا، اس کے باوجود حزب اختلاف نے کارکنوں پر تشدد کا حیلہ تراش کر ملک بھر میں احتجاج کی کال دے دی ہے، جس سے قطع نظر اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور کے جس ٹاکرے کا چرچا ہے اس حوالے سے حکومت کیا ٹھوس لائحہ عمل اختیار کرتی ہے کہ اسے کامیاب نہ ہونے دیا جائے یا پھر جلسے کا انعقاد ہی نہ ہونے دیا جائے۔ملتان میں حکومت اگررکاوٹیں کھڑی کرنے کی بجائے حزب اختلاف کو قاسم باغ میں جلسے کا موقع دیتی تو حزب اختلاف کی آٹھ جماعتیں مل کر بھی شاید اتنے لوگ اکھٹے نہ کرسکتی کہ جلسہ کامیاب ٹھہرتا۔ صوبائی دارالحکومت پشاورمیں اے این پی جے یوآئی میزبان جماعتیں تھیں، قومی وطن پارٹی کیساتھ ساتھ پیپلزپارٹی جلسے کیلئے کوشاں جماعتیں تھیں، کراچی کا جلسہ اور ملتان کے جلسوں کی میزبانی پیپلزپارٹی نے کی، اب لاہور کے جلسے کی ذمہ داری مسلم لیگ(ن)پر ہے جومینار پاکستان کا احاطہ بھر کر دکھاسکے گی تب ہی حکومت اور مقتدر قوتوں کو سنجیدہ پیغام جائے گا۔ اندازہ ہے کہ لاہور کے جلسے کی کامیابی کیلئے پی ڈی ایم کی پوری قیادت متحرک ہوگی، ملتان کے جلسے کی خاص بات آصفہ بھٹو کی شرکت تھی یوں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی نمائندگی خواتین نے کی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بڑا واقعہ ہے۔ حکومت کو پی ڈی ایم کے جلسوں کو ناکام قرار دینے کا پورا حق حاصل ہے لیکن جس طرح پی ڈی ایم ملک گیر جلسوں کے ذریعے ایک فضا بنا رہی ہے اس کا حکومت کو مقابلہ کرنے میں صرف کوروناہی رکاوٹ نہیں بلکہ علاوہ ازیں بھی چیلنجز درپیش ہیں۔ حکومت کی رخصتی یا عدم رخصتی، حکومت کو خطرات یا محفوظ ہونے کے سوالات سے قطع نظر جب ملک میں بڑے پیمانے پر عوام خواہ وہ مہنگائی اور اپنے مسائل کے حل ہی کیلئے نکالے جائیں اسے زیادہ دیر نظرانداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔ حکومت کیلئے بہتری اسی میں نظر آتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح حزب اختلاف سے مذاکرات کا آغاز کرے اور اسلام آباد کی طرف مارچ کی دھمکی کو عملی شکل اختیار نہ ہونے دے۔

مزید پڑھیں:  گندم سکینڈل کی تحقیقات