p613 205

سیاسی رضاکاروں کو عسکریت پسندوں سے نہ جوڑا جائے

وفاقی وزارت داخلہ کی صوبائی حکومتوں کو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے تشکیل کردہ مسلح جتھوں کے افعال کا جائزہ لینے کیلئے ضروری اقدامات کی ہدایت اپنی جگہ درست ہے لیکن اس کا نشانہ صرف سیاسی جماعتوں کے رضاکاروں کو بنانا درست اس لئے نہ ہوگا کہ یہی رضاکار حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شریک ہو کر جلسوں کے شرکاء کو تحفظ دینے کی ضرورت پوری کرتے ہیں، علاوہ ازیں یہ کسی قسم کے عسکری ونگ کے طور پر نہیں اور نہ ہی مسلح اور کسی پوشیدہ ایجنڈے کے حامل ہیں بلکہ واضح طور پر سیاسی جماعتوں کیلئے رضاکارانہ کام کرتے ہیں بہرحال کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی ملیشیاز قائم کر رکھی ہیں جو نہ صرف وردی پہنتی ہے بلکہ مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرح ان میں درجہ بندی بھی ہے۔ مراسلے میں مزید کہا گیا کہ یہ ملیشیاز اپنے آپ کو ایک عسکری تنظیم کی طرح سمجھتی ہیں جو آئین کی دفعہ256 اور نیشنل ایکشن پلان کے نکات (نمبر3) کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ مراسلے میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس قسم کی چیزوں کو اگر دیکھا نہ جائے تو یہ سیکورٹی کی پیچیدہ صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتی ہیں، اس کے علاوہ اس مسئلے کا ملک کے قومی اور بین الاقوامی تشخص پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ سیکرٹری داخلہ کے تحفظات کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو یہ رضاکار تنظیمیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ایک باقاعدہ تاریخ رکھتی ہیں اور برسوں سے یہ خدمات انجام دے رہی ہیں جن کا کبھی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی بین الاقوامی فورم میں ان کے کردار وعمل اور طریقہ کار پر سوال اُٹھایا گیا۔خود ملک کے اندرسخت سے سخت حالات یہاں تک کہ مارشل لاء اور ایمرجنسی کے دنوں میں بھی ان کے حوالے سے کوئی سخت احکامات تک جاری نہیں ہوئے۔ قبل ازیں بھی اسی دور حکومت میں اسی قسم کے اعتراضات اُٹھائے گئے تھے مگر پھر خاموشی طاری رہی اب ایک مرتبہ پھر یہ سوال اُٹھا ہے ایسا لگتا ہے کہ معاملہ ان تنظیموں کا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں ان کے سرپرست سیاسی جماعتوں کوتنبیہ ہے جس کا بے اثر ثابت ہونا خود حکومتی عملداری کا سوال ہوگا بہتر ہوگا کہ پرامن سیاسی رضاکاروں کو عسکریت پسندوں کی لاٹھی سے ہانکنے سے گریز کیا جائے اور خواہ مخواہ کا ایک نیا تنازعہ کھڑا نہ کیا جائے۔
بیوروکریسی کی بلا جواز شکایت مناسب نہیں
خیبر پختونخوا اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے بیورو کریسی کیخلاف شکایات آنا معمول بن جانا کوئی نیک شگون نہیں، سیاستدانوں کی پولیس اور بیوروکریسی سے شکایات معمول ہے۔ سیاستدانوں کا اپنا مؤقف ہے جبکہ بیوروکریسی اسے اختیارات میں مداخلت اور ناجائز امور منوانے کیلئے دبائو ڈالنا قرار دیتی ہے وگرنہ کوئی وجہ نہیں کہ بیوروکریسی اراکین اسمبلی کی بات پر کان نہ دھرے۔ اراکین اسمبلی اور حکومت کو اس امر کا بھی ادراک اور احساس ہونا چاہئے کہ اگر ان کیساتھ بیورو کریسی کا رویہ درست نہیں تو باقی عوام کیساتھ ان کا رویہ کتنا سردمہری اور بیزاری کا ہوگا۔ جس قسم کے واقعے کا حوالہ دے کر اسمبلی میں احتجاج کیا گیا ہے وہ کوئی بڑا واقعہ نہیں اور نہ ہی سرکاری حکام نے کسی ہنگامی نوعیت کے کام میں تاخیر وغفلت کا مظاہرہ کیا۔ ایس اوپیز کی خلاف ورزی پر کارروائی اتنی ضروری اور فوری ہو تو سب سے پہلے سیاستدان ہی قابل گرفت نظر آئیں گے۔بہتر ہوگا کہ اچھے تعلقات اور مثبت سوچ اپنائی جائے اور عوامی مسائل کے حل کو اپنے استحقاق پر قربان کیا جائے۔توقع کی جانی چاہئے کہ بیوروکریسی اور اراکین اسمبلی دونوں اپنی اپنی جگہ ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کریں گے اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس