1 314

میرے شہروں میں مت فساد کرو

برسوں بیت گئے جب ایک نعرہ سیاسی فضا پر چھایا ہوا تھا کہ ”ڈنڈے گولی کی سرکار، نہیں چلے گی نہیں چلے گی” یہ نعرہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ان کے احتجاج کو روکنے کیلئے اس دور کی حکومت کی جانب سے عوامی اجتماعات پر ریاستی تشدد کیخلاف لگایا جاتا تھا، پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اوربسا اوقات ہوائی فائرنگ تک نوبت آجانے، آنسو گیس استعمال کرنے کے نتیجے میں اُبھرنے والی صورتحال کا جواب احتجاج کرنے والے اسی نعرے سے دیتیتھے، احتجاج جاری رکھتے تھے اور پھر راوی چین ہی چین لکھتا، پھر حالات میں بدلاؤ یوں آیا کہ سابق مشرقی پاکستان میں مولانا عبدالحمید بھاشانی نے احتجاج میں ایک نیا عنصر داخل کر دیا اور جسے تاریخ میں ”جلاؤ گھیراؤ” کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اب اتنے برس بعد ایک بار پھر ملکی سیاست میں تشدد کی پرچھائیں اُبھرتی محسوس ہو رہی ہیں، خود کو جمہوریت قرار دینے والے وزیراعظم کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے احتجاجی تحریک کو روکنے کیلئے اگرچہ اپوزیشن کو جلسے کرنے کی اجازت کا بیانیہ تو قابل ستائش ہی قرار دیا جا سکتا ہے مگر اس اجازت پر ڈبلیو ڈبلیو ای یعنی ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ کے ان مقابلوں سے تشبیہ دینے میں کوئی امر مانع نظر نہیں آتا جن میں ایک ریسلر کا یا تو ایک ہاتھ پیچھے کی جانب باندھ دیا جاتا ہے اور مقابلے میں ایک اور کبھی کبھی دو دو ریسلر مقابلے میں اُتارے جاتے ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کو ایک ہاتھ میں ہتھکڑی لگا کر رنگ کے کسی ایک کونے کیساتھ باندھ کر دوسرے پہلوان کا مقابلہ کرنے کا کہا جاتا ہے اب جو اپوزیشن کو جلسے کرنے کی اجازت ”مرحمت فرما” دی گئی ہے اس کی حالت بھی بالکل ہتھکڑی بدست پہلوانوں کی سی لگتی ہے، یعنی ایک تو یہ دھمکی کہ یہ جلسے کرلیں، نہیں روکیں گے، البتہ مقدمے درج ہوں گے جبکہ ان جلسوں کیلئے سہولیات یعنی کیٹرنگ، ساؤنڈ سسٹم، ٹرانسپورٹ وغیرہ وغیرہ فراہم کرنے والوں سے ”نمٹا” جائے گا۔ گویا بقول شاعر
شمار اس کی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرتا ہے چھین کر آنکھیں
بات ہو رہی تھی ”ڈنڈے” کی جس پر حکومت نے پابندی لگاتے ہوئے گویا یہ بتا دیا ہے کہ ایسے کسی جھتے کو اپنے ڈنڈوں کی نمائش کرنے پر تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی مخصوص (وردی نما) لباس میں بھی ملبوس ہوں گے، اس پر مولانا فضل الرحمن نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈنڈے کی رجسٹریشن ہوتی ہے نہ لائسنس۔ وزارت داخلہ کا نوٹس سیاسی دباؤ اور رجسٹرڈ جماعت کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں نے بھی اس پر تبصروں میں کہا ہے کہ مخصوص رنگ کا لباس پہننے کا علاج تو ان رضاکاروں کو عام سفید لباس میں کام جاری رکھنے کا حکم دے کر کیا جا سکتا ہے جبکہ جس ڈنڈے سے حکومت خوفزدہ ہے اس کے حوالے سے ممکن ہے وزارت داخلہ کے پیش نظر وہ محاورہ ہو یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس، حالانکہ اس وقت ایسی کوئی صورتحال بھی نہیں ہے اور ”بھینس” پر تصرف سرکار ہی کا ہے، تاہم اگر ڈنڈے یا لاٹھی پر پابندی لگا دی گئی تو جن لوگوں نے ملک بھر میں حقیقی بھینسیں، گائے، بکریاں وغیرہ پال رکھی ہیں وہ بے چارے مفت میں مارے جائیں گے یعنی وہ اپنے جانوروں کے ریوڑ ہانکنے کیلئے روایتی لاٹھی کا استعمال نہیں کریں گے اور سرکار کے خوف سے یہ لاٹھیاں اپنے ریوڑوں کو قابو میں رکھنے کی بجائے گھر چھوڑ دیں گے تو بھی مارے جائیں گے یعنی ان کے جانور بھٹک بھی سکتے ہیں چونکہ سیاسی رضاکار یہ ڈنڈے یا لاٹھیاں جلسوں میں ہجوم کو قابو کرنے کیلئے اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں تو عوام الناس کو بھی ”کالانعام” یعنی جانوروں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور گزشتہ سات دہائیوں سے زیادہ کے عرصے سے انہیں بھی سیاسی رہنماء بالکل جانوروں ہی کی طرح ہانک رہے ہیں اس لئے اگر سرکاروالا مدار نے لاٹھی پر پابندی لگا دی تو یہ عوام کالانعام کسی بھی وقت سیاسی خانوادوں سے آزاد ہو کر مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، اس لئے وزارت داخلہ سیاسی رضاکاروں کی لاٹھیوں کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کرلے تو بہتر ہے تاہم اس لائسنس کی بات پر آزادی کے بعد کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے جو ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ تب ہماری عمر بہ مشکل5برس کی تھی اور وہ یوں تھا کہ جب برصغیر کو آزادی ملی تو ایک شخص اپنی ”تھری ناٹ تھری” بندوق اُٹھائے جارہا تھا، ایک پولیس والے نے اسے روک کر کہا اس بندوق کا لائسنس ہے تمہارے پاس؟ تو اس شخص نے بندوق کاندھے سے اُتار کر اس کی نالی کا رخ سپاہی کے سینے کی طرف کرتے ہوئے کہا، ہاں! اس کا لائسنس اس کی نالی میں ہے دکھاؤں؟ پولیس والے نے کہا دیکھ لیا ہے بھائی جائو معاف کرو، یہ تو بندوق کی بات تھی جبکہ یہاں تو لاٹھی کا معاملہ ہے جس کا بقول مولانا فضل الرحمن نہ لائسنس ہے نہ رجسٹریشن اس لئے اس پر پابندی کیسی؟ مگر لاٹھی برداروں کو اس بات کا بہرحال لحاظ رکھنا پڑے گا کہ لاٹھی گھماتے ہوئے سامنے والے کی ”ناک” متاثر نہ ہو، کہ آزادی کی آڑ میں اتنی زیادہ آزادی بھی نہیں مل سکتی، بقول خالد خواجہ
میرے لوگوں کو ورغلائو مت
میرے شہروں میں مت فساد کرو

مزید پڑھیں:  ایرانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی