4 245

تعلیمی اداروں کی بندش، سوالات اور تضادات

پاکستان میں کورونا کی پہلی لہر کے نتیجے میں تعلیمی ادارے تقریباً چھ مہینے بند رہے، پندرہ ستمبر کو خدا خدا کر کے تعلیمی ادارے بمشکل کھلے ہی تھے اور ابھی طلبہ اساتذہ اور پڑھائی کا پورا ردھم بنا بھی نہیں تھا کہ خبریں آنے لگیں کہ سکولوں اور کالجوں اور جامعات میں چند ایک طلبہ اور اساتذہ کا کورونا پازیٹو آگیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں تعداد بتائی جاتی رہی اور پھر ایک دن خبر آئی کہ وفاقی وزیرتعلیم صوبائی وزرائے تعلیم کیساتھ مشاورت کر کے کوئی فیصلہ کریں گے۔دو تین دن اسی انتظار میں گزرے لیکن اس حال میں کہ سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ زبانی کلامی اداروں کی بندش کا اظہار نہ بھی کرتے لیکن اندر اندر سے فریقین کی خواہش تھی کہ چھٹیاں مل ہی جائیں تو مزہ آجائیگا۔پاکستانی دو ہی چیزوں کو بہت انجوائے کرتے ہیں، ایک مفت کھانا اور دوسری چھٹیاں۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے طلبہ، اساتذہ اور مالکان دعائیں مانگ رہے تھے کہ تعلیمی ادارے دوبارہ بند نہ ہوں کیونکہ طلبہ سے چھٹیوں کی فیس وصول کرنے کے بعد اُن کا حق بنتا ہے کہ اُنہیں پڑھایا بھی جائے، اساتذہ بے چاروں کو کلاس لئے بغیر پرائیویٹ اداروں میں تنخواہ نہیں ملتی اور مالکان کو بھی شاید عدالتی فیصلہ کے مطابق طلبہ سے فیس میں رعایت اور اساتذہ کو تنخواہیں ادا کرنے اور سکولوں کالجوں سے فارغ نہ کرنے کی ہدایات ملی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ مجبور اساتذہ کو کہیں آدھی، کہیں چوتھائی تنخواہیں دی گئیں اور بعض کی نوکریاں بھی چلی گئیں۔لیکن اس سب کے باوجود ایک عام سے ذہن میں یہ عام سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بازار کھلے ہیں، صنعتیں، کارخانے کھلے ہیں اور وہاں ہزاروں لوگ کام وکاروبار کرتے ہوئے ملتے جلتے ہیں، سیاستدان لاکھوں افراد کو جلسوں میں بلا کر سینہ تان کر فخر سے کہتے ہیں کہ حکومت کی ساری دشمنیوں اور روک تھام کے باوجود کامیاب جلسہ عوام میں ہماری پذیرائی کا ثبوت ہے۔ لاکھوں پاک افواج سرحدوں اور چھائونیوں میں دفاع وطن کیلئے مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف ہیں، وزیراعظم خود بار بار کہہ چکے ہیں کہ انڈسٹری کا پہیہ چلتے رہنا چاہئے تاکہ غریب مزدور غربت اور بھوک کے ہاتھوں ہلاکت سے محفوظ رہیں اور یقینا یہ قابل تحسین بات ہے، اس کے علاوہ الحمداللہ کرونا کی پہلی لہر میں بھی اور اب بھی مساجد اور مدارس کھلے ہیں، پاکستان میں مساجد پر اگر پہلی لہر کے دوران ایس اوپیز وغیرہ کی سختی کی گئی تھی جو چنددن تک ہی بعض بڑی مساجد میں نظر آئیں لیکن بعد میں لوگ معمول کے مطابق ہی نمازیں ادا کرتے رہے۔ جمعہ کی نمازوں میں سینکڑوں ہزاروں لوگ بغیر ماسک اور اپنی جائے نماز کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں اور شاید وزیراعظم نے اس دفعہ علماء سے مشاورت کے تحت مدارس اور مساجد کھلے رکھنے کیساتھ یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ مساجد سے کورونا نہیں پھیلااور اللہ کے فضل سے پھیلنا بھی نہیں چاہئے کیونکہ اللہ کے گھروں ہی میں اللہ تعالیٰ سے ایسی وبائو اوربلائوں کی رفع دفع کیلئے دعائیں مانگی جاتی ہیں اور پاکستان کے علماء اور آئمہ کی استقامت قابل تحسین ہے۔ عرب ممالک میں تو مساجد اور حرمین الشریفین تک کو بند کیا گیا تھا جس پر یقینا لوگ خوفزدہ بھی ہوگئے تھے اور پریشان بھی تھے۔ پچھلے ہفتے امارات میں 9مہینے بعد جمعہ مبارک کی پہلی دفعہ نماز ادا کی گئی۔لہٰذا ان سوالات اور تضادات کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر تعلیمی اداروں کو کیوں بند رکھا جارہا ہے جبکہ امریکہ اور انگلینڈ میں جہاں پاکستان کے مقابلے میں اموات اور مریضوں کی تعداد دس گنا سے بھی زیادہ ہے لیکن تعلیمی ادارے اس کے باوجود کھلے ہیں کہ وہاں سائنس وٹیکنالوجی کی سہولیات ہمارے مقابلے میں بہت اعلیٰ اور وافر مقدار وبہتات کیساتھ موجود ہیں لیکن وہاں آن لائن کلاسز کو ترجیح نہیں دی جاتی۔حقیقت بھی یہی ہے کہ آن لائن کلاسز اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور پھر خاص کر پاکستان جیسے ملک میں دید وشنید کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ آن لائن کلاسز یاہفتہ میں ایک دن سکول کالج میں آنا دل کو خوش رکھنے کا ایک بہانہ ہے کہ نہیں جی ہم نے تو بچوں کی حفاظت کی خاطر یہ انتظام کیا ہے اور تعلیم وتعلم کا سلسلہ بدستور جاری ہے، نہیں صاحب! پاکستان جیسے ملک میں تعلیم کو اب ترجیح ملنی چاہئے ورنہ اس کم شرح خواندگی کیساتھ اگر ہم نے طلبہ کو اسی طرح بغیر پڑھے اور کلاسیں لئے اگلی جماعتوں میں پروموٹ کر کے بھیجنا جاری رکھا تو اس کے اثرات ملک میں ہر شعبہ زندگی پر پڑیں گے۔ اللہ کرے کہ ہمیں بہت جلد یہ ادراک حاصل ہو کہ ہم تعلیم میں دیگر اقوام سے بہت پیچھے ہیں لہٰذا جنگی بنیادوں پر انتظامات کرنا ہوں گے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی