p613 206

استعفوں کا صرف اعلان حتمی فیصلہ نہیں

جمعیت علمائے اسلام (ف)اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو31دسمبر تک پارٹی قائدین کے پاس استعفے جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے۔ ویڈیو لنک خطاب میں نواز شریف نے تجویز دی کہ پی ڈی ایم کے تمام ارکان اسمبلی اپنے استعفے مولانا فضل الرحمان کے پاس جمع کرادیں جسے وہ لانگ مارچ کے خاتمے پر اسپیکر کو پیش کر دیں۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن اراکین استعفیٰ دیں گے تو ہم ضمنی انتخابات کرادینگے ۔ وزیر اعظم سے سوال کیاگیاکہ اپوزیشن اتنی پر اعتماد کیوں ہے ؟ جس کے جواب میں وزیر اعظم نے کہاکہ میں اپوزیشن سے زیادہ پر اعتماد ہوں اور جیت میری ہی ہوگی ،ہوسکتا ہے کچھ ملک اپوزیشن کے پیچھے ہوں کیونکہ کچھ ملک ایسے ہیں جو کبھی نہیں چاہتے کہ پاکستان تگڑا ہو ۔ انہوںنے کہاکہ بار ی باری تمام مسلمان ملکوں کو کمزور کر نے والوں کی نظر اب پاکستان پر بھی ہے، سب کچھ پلاننگ سے ہورہاہے ۔ وزیراعظم نے کہاکہ فوج نے ہمیشہ حکومت کی مدد کی ہے اور سول ملٹری تعلقات بہت اچھے ہیں ،ہم ایک پیج پر ہیں ۔انہوںنے کہاکہ ہم نے اپوزیشن کو جلسے کی اجازت نہیں دی لیکن اپوزیشن کو روکیں بھی نہیں۔حزب اختلاف کے اجلاس میں استعفے ضرور طلب کئے گئے ہیں لیکن استعفے کب دئیے جائیں گے اس کی تاریخ اورمدت کا اعلان کیا جاتا تو استعفوں کا معاملہ سنجیدگی کا حامل ہوتا، نیز استعفے پی ڈی ایم کے قائد کو پیش کرنے کی نواز شریف کی تجویز کو بھی پذیرائی نہیں ملی بلکہ اپنی اپنی جماعتوں کی قیادت کے پاس استعفے جمع کرانے کا کہا گیا ہے۔ بہرحال یہ ایک اصولی بات ہے ماضی میں استعفوں کے معاملے میں خود پی ڈی ایم کے قائد ایم ایم اے کی اپنی اتحادی جماعت جماعت اسلامی کیساتھ اتفاق نہ کرنے کا عملی مظاہرہ کر چکی ہے علاوہ ازیں بھی سیاستدانوں اور اراکین اسمبلی کیلئے اس عہدے کو لات مار دینے جس کی تگ ودو میں وہ نجانے کن کن مراحل ومشکلات اور کبھی کبھار اہانت سے بھی گزرتے ہیں ملک میں سیاسی جدوجہد ہورہی ہو تو سختی برداشت کرنی پڑتی ہے، اتنی مشکلوں سے حاصل شدہ کسی عہدے سے استعفیٰ کوئی آسان کام نہیں، پھر پیپلزپارٹی کیلئے یہ بڑا مشکل فیصلہ ہوگا کہ وہ سندھ حکومت کی قربانی دے اس لئے اس فیصلے کو فی الحال اس سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا جس کا تاثر دیا جارہا ہے، علاوہ ازیں اسلام آباد میں اجلاس کے بعد پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں اور اس کے قائد کے لب ولہجے کا بھی جائزہ لیا جائے تو ”آر یا پار” والا کوئی معاملہ نظر نہیں آیاجہاں تک وزیراعظم کے خیالات کا تعلق ہے ان کا بھی حزب اختلاف کو جواب ”تگڑا” نہیں اور حکومت کیلئے کوئی تگڑا جواب ممکن ہی نہیں اس لئے کہ استعفے آگئے تو بات اتنی بڑھ جائے گی کہ پھر واپسی کا راستہ باقی نہیں رہے گا، اگرچہ سیاستدانوں کی کہی ہوئی کسی بات کو بھی پتھر پر لکیر سمجھنا غلطی ہوگی لیکن اتنا اندازہ ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت نے استعفے سپیکر کے حوالے کر دئیے یا پھر ہر جماعت کے سربراہ نے استعفے جمع کرا دئیے یا انفرادی طور پر اراکین سپیکر کے پاس استعفے جمع کرادیں تو پھر ان کا طرز عمل پی ٹی آئی کے استعفوں سے مختلف اور سنجیدہ ہوگا بنابریں حکومت کو حزب اختلاف کے استعفوں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے اور کوشش ہونی چاہئے کہ حکومت حزب اختلاف کو جس قیمت پر بھی ہو بات چیت پر آمادہ کرے بصورت دیگر استعفوں سے بحران کا امکان ہے اگر حزب اختلاف استعفے دے دیتی ہے تو پارلیمان کے دونوں ایوان بے جان اور بے وقعت حیثیت اختیار کر جائیںگے، سینیٹ کے انتخابات خطرے میں پڑ جائیں گے اور اس کیساتھ ساتھ احتجاج سے صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جس کا متحمل ہونا مشکل ہوگا۔ حزب اختلاف استعفے دیدے تو معاملات وواقعات کی باگ ڈور پر حکومت کی گرفت مضبوط نہیں رہے گی اور حزب اختلاف کا وزن بڑھ جائے گا، ہر سیاسی بحران کا حل سیاسی مذاکرات خواہ وہ براہ راست ہوں بالواسطہ ہوں پارلیمان کی وساطت سے ہوں یا پھر پس پردہ مسائل کا حل مذاکرات ہی سے نکلنے کی روایت ہے جاری سیاسی فضا میں سوائے خفیہ مذاکرات کے کوئی اور موزوں راستہ نظر نہیں آتا۔ حکومت کو سمجھنا چاہئے کہ مذاکرات پی ڈی ایم کی نہیں ان کی ضرورت ہے پی ڈی ایم کے پاس مزید آپشنز موجود ہیں حکومت ضمنی انتخابات کے جس آپشن کی بات کر رہی ہے ایسا شاید ممکن ہو اور اس کی شاید ہی نوبت آئے۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس