2 356

سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی

وزیراعلیٰ محمود خان نے مہمان نوازی کی مثال قائم کر دی ہے اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر اپوزیشن رہنماؤں کو احتجاجی کیمپ قائم کرنے کے ہنگام چائے اور کیک سے ان رہنماؤں کی پذیرائی کی، تاہم اپوزیشن رہنماؤں نے (دل میں یہ سوچ کر) کہ ان کی مہمان نوازی کا بار کونسا وزیراعلیٰ کی اپنی جیب پر پڑا ہے بلکہ یہ تو سرکاری فنڈز کا کمال ہے مزے لے لیکر کیک چائے نوش جان کیا۔ البتہ اچھے مہمانوں کی طرح وزیراعلیٰ کا شکریہ ضرور ادا کیا، ہمیں تو یہ ساری صورتحال اس بہت پرانے لطیفے سے مشابہ نظر آتی ہے اور قارئین کرام سے گزارش ہے کہ اسے بس لطیفہ ہی سمجھ کر لطف اندوز ہوں یعنی اس میں کوئی اور پہلو ڈھونڈنے کی کوشش نہ فرمائیں۔ لطیفہ کچھ یوں ہے کہ جنت کی سیر کرتے ہوئے جب کچھ نیک اور پارسا لوگ دوزخ کی دیوار کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دیوار کے پار دنیا بھر کے مشہور رقاصائیں اور موسیقار ناچ گانے کی محفل سجائے ہوئے ناچ گا رہے تھے، جنت کے مکینوں نے فرشتوں سے پوچھا یہ کونسی جگہ ہے تو فرشتوں نے کہا، یہ دوزخ کے باسی ہیں اور آگے دوزخ ہے، نیک لوگ حیرت میں پڑ گئے اور فرشتوں سے استدعا کی کہ انہیں بھی وہاں جانے کی اجازت دی جائے، فرشتوں نے لاکھ منع کیا مگر وہ بضد تھے کہ بقول شاعر
جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کا کیا کرے کوئی
فرشتوں نے کہا بھی کہ جنت کے بدلے دوزخ قبول نہ کرو، مگر وہ نہ مانے، تو ان کو دوزخ میں داخل کر دیاگیا۔ وہاں جب انہیں آگ میں پھینک دیا گیا تو انہوں نے وہاں کے مقرب فرشتوں سے پوچھا یہ کیا، اور وہ جو ہم نے جنت کی دیوار کے پاس دوزخ کی سرحدات کے پاس محفل طرب برپا ہوتے دیکھا تھا اس کی حقیقت کیا تھی؟ دوزخ کے مقرب فرشتوں نے کہا کہ یہ جہنم ہے جہاں آپ نے آنے کی خواہش ظاہر کی اور وہ جو آپ نے دیکھا تھا جہنم کا پروپیگنڈہ سیل تھا، گویا بقول ظریف لکھنوی
وحشت میں ہر ایک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
احتجاج کرنے والے سیاسی رہنماؤں کی تو وزیراعلیٰ نے چائے کیک سے پذیرائی کی جبکہ وزیراعظم ابتدا ہی سے کہہ رہے ہیں کہ میں انہیں رلاؤں گا اور وہ اپنے وعدے پر قائم ہیں اور جب بھی بیان دیتے ہیں تو انہیں جیل میں ڈالنے کی بات کرتے ہیں بلکہ جہاں جہاں ان کا بس چلتا ہے وہ اپنی بات پوری کرتے ہوئے دکھاتے ہیں، گزشتہ کئی مہینوں کے دوران انہوں نے مبینہ بدعنوانیوں کی وجہ سے اپوزیشن رہنماؤں کو جیل یاترا پر نہ صرف مجبور کیا بلکہ وہاں ان کیساتھ خود بقول بعض سیاسی رہنماؤں کے جو سلوک روا رکھا گیا اس سے ان رہنماؤں کی چیخیں نکل آئیں۔ بظاہر تو وزیراعلیٰ نے اپوزیشن ارکان کو کیک چائے سے نوازا مگر جیل کے اندر انہیں مبینہ طور پر چوہوں کے کھائے ہوئے کھانے پیش کئے جاتے رہے، زبردستی زمین پر بٹھا کر ان کی کمر درد میں اضافہ کروایا، ان کے زیراستعمال کوٹھڑیوں کے علاوہ غسل خانوں میں بھی خفیہ کیمرے نصب کروائے اور ان کو ہر طرح کی ہراسانی کا سامنا کرنے پر مجبور کیا۔ گویا یہ جو وزیراعلیٰ نے کیک چائے پیش کی ہے اسے جیل کی حقیقی زندگی کے مقابلے میں زندان کا پروپیگنڈہ سیل سمجھ لینا چاہئے۔ اس لئے اگر ہم اپوزیشن رہنماؤں کو یہ کہہ دیں کہ ”مشتری ہوشیار باش” تو شاید غلط نہ ہو، ویسے بھی ان دنوں اپوزیشن جس طرح حکومت کیخلاف ملک بھر میں احتجاج کو انگیخت کر رہی ہے اس حوالے سے حکومت کے اکابرین اسی بیانئے پر قائم ہیں کہ اپوزیشن کا مقدر جیل ہے اور اپوزیشن کی تحریک روکنے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے اس کی قسمت میں کامیابی کا کس قدر امکان ہے اس حوالے سے وثوق سے کچھ کہا بھی نہیں جاسکتا، اگرچہ سرکار والا تبار کے بیانئے اور عمل میں بعدالمشرقین بھی دیکھنے میں آرہا ہے یعنی کہنے اور کرنے کے بیچوں بیچ ”یوٹرن” کی وہ پالیسی بھی عیاں ہے جس پر وزیراعظم فخریہ انداز میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر بڑا لیڈر یوٹرن لیتا ہے۔ اس کی تازہ مثال لاہور میں 13دسمبر کے اپوزیشن جلسے کے حوالے سے بیانیہ تو یہ ہے کہ کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی گویا ”جا چھوڑ دیا حافظ قرآن سمجھ کر” مگر ساتھ ہی مینار پاکستان گراؤنڈ میں پانی چھوڑ کر ملتان کے قلعہ کہنہ سٹیڈیم والا رویہ اختیار کرلیا گیا ہے، ساتھ ہی غیرمتعلقہ لوگوں کو اپوزیشن کو سہولیات فراہم کرنے پر دھمکیاں دی جارہی ہیں، حالانکہ وزیراعظم نے ماضی میں بار بار اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اپوزیشن جلسے جلوس کا شوق پورا کرلے، ہم انہیں کنٹینر کے علاوہ کھانا پینا بھی فراہم کریں گے مگر اب ”بڑے لیڈر” کی طرح یوٹرن لیتے ہوئے بڑکپن کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ٹریلر کے طور پر یہاں وزیراعلیٰ نے کیک چائے پیش کر کے اپوزیشن کی پذیرائی شروع کر دی ہے۔ بقول شان الحق حقی
سمجھ میں خاک یہ جادوگری نہیں آتی
چراغ جلتے ہیں اور روشنی نہیں آتی

مزید پڑھیں:  خشت اول کی کجی اصل مسئلہ ہے