3 259

اسرائیل دوست بس کا سپیڈ بریکر؟

مسلم دنیا میںاسرائیل سے تعلقات کیلئے چھوڑی گئی گاڑی جس رفتار سے دوڑنے لگی تھی اسے دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ چند ہی مسلمان ممالک اس میں سوار ہونے سے بچ جائیں گے۔ متحدہ عرب امارات جیسا باوسیلہ اور ترقی یافتہ مسلمان ملک اسرائیل دوست بس میں کیا سوار ہوا کہ مسافروں کی ایک قطار سی بنتی چلی گئی۔ بحرین بھی اُچھل کر اس بس میں سوار ہوگیا، سوڈان بھی اس جانب لپکنے لگا اور سب سے اہم منظر وہ تھا جب سعودی عرب کو بھی اس بس کی جانب نگاہِ التفات کرتے دیکھا گیا۔ اسی دوران پاکستان میں ایک بار پھر یہ بحث شروع ہوگئی کہ اگر تنازعہ فلسطین کے اصل فریق عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے ہیں تو پاکستان اصول پسندی اور فلسطین دوست کھٹارہ بس کو کب تک دھکا دیتا رہے گا۔ اس بحث کیساتھ ہی یہ تاثر بھی عام ہوا کہ ملک کی ہیئت مقتدرہ اسرائیل کیساتھ دوستانہ تعلقات کے قیام کی حامی ہے۔ حکومت کے ایک ہمدرد ٹی وی اینکر نے اسرائیلی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں کئی دلائل دئیے مگر آخر میں وہ یہ بات کہہ گئے کہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا تھا مگر انہوں نے کہا ایسا نہیں ہوسکتا۔ دلچسپ بات یہ کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے جن دلائل کا سہارا پاکستان میں لیا جاتا ہے کم وبیش اسی طرح کے دلائل ایران میں بھی پیش کئے جا رہے ہیں، مثلاً یہ کہ سارے سنی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے مگر ایران اُمت مسلمہ کا چورن کب تک بیچتا رہے گا۔ ایران کے اس فیصلے کا اثر شیعہ آبادی پر پڑتا ہے، پاکستان، ایران، سعودی عرب ہو یا کوئی مسلمان ملک اسرائیل سے تعلق اور دوستی کے تمام دلائل ایک ہی مشین میں گھڑے جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ دلائل کی فہرست پر متعلقہ مسلمان ملک کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کیلئے اسرائیلی پروازوں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیکر کنفیوژن کو مزید بڑھا دیا۔ اس سے پہلے اسرائیل نے اپنے ہاں دورہ کرنے والے سعودی شہریوں کو قرنطینہ کی شرط سے مستثنیٰ قرار دے کر اس دُھند کو مزید گہرا کر دیا۔ اب سعودی عرب اور قطر نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہوئے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ قطر تو پہلے ہی اس حوالے سے ایک پوزیشن لئے ہوئے تھا مگر سعودی عرب کی وضاحت نے اسرائیل دوست بس کے آگے سپیڈ بریکر کھڑا کیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے ایک ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا فلسطین کی خودمختار ریاست قائم ہونے تک اسرائیل سے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح قطر کے وزیرخارجہ محمد عبدالرحمان ثانی نے بھی کہا کہ خلیج کے بحران اور اسرائیل سے تعلقات میں کوئی تعلق نہیں۔
سیاسی ماہرین کی نظر میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کہ جہاں آئے روز مذہب کے نام پر شدت پسندانہ ماحول پید اہو رہا ہے ان سب عوام کا محرک بھی کسی نہ کسی طور سے اسرائیل اور امریکہ ہی ہیں۔ سیاسی دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی ایک جماعت اس بات سے بھی متفق ہے کہ جب ان عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے تو پھر کشمیر کا مسئلہ بھی ان کیلئے دفن ہو چکا ہے کیونکہ جب یہ عرب ممالک فلسطین سے متعلق اپنا ضمیر فروش کر چکے ہیں تو اب حکومت پاکستان کو ان سے مسئلہ کشمیر پر بھی کسی قسم کی حمایت یا مدد ک توقع نہیں رہی ہے۔
فلسطین کے تنازعہ کی وجہ فلسطینیوں کے حالات ہیں جو بغیر ملک کے رہ رہے ہیں اور زیرقبضہ زندگی گزار رہے ہیں۔ خلیج سے اُٹھنے والی یہ دو آوازیں اور وضاحتیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے اُٹھائی گئی مہم کو کمزور کر رہی ہیں لیکن اس کا اصل کریڈٹ پاکستان کو جاتا ہے جس نے سعودی عرب سمیت کسی مسلمان ملک کے فیصلے اور رائے کا انتظارکئے بغیر دوٹوک انداز میں کہا کہ ایک آزاد وخودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ خود اسرائیل کے اخبارات نے عمران خان کے اس مؤقف کو نمایاں انداز میں شائع کیا۔ پاکستان نے پہل کرکے ایک اصول پر کھڑا رہنے کا فیصلہ کیا تو اسے فلسطینی قیادت نے بھی سراہا اور فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ایک خط لکھ کر وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا۔ تجارت موجودہ دور کی ایک بڑی حقیقت اور سکہ رائج الوقت ہے۔ اسی مجبوری کے باعث دنیا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دیکھ کر بھی غضِ بصر سے کام لیتی ہے اور بھارت کی مذمت نہیں کرتی اور ہم دنیا کے اس غیراخلاقی اور غیرانسانی روئیے کا رونا روتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا نے تجارت کو اپنا خدا بنا لیا ہے۔ اسرائیل کے معاملے میں اسی اصول کی نفی کرکے تو ہم دنیا کو دوش دینے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ مسلمان دنیا میں تسلیم اسرائیل کی دوڑتی ہوئی بس کو سپیڈ بریکر اور ریورس گیئر لگانے کی پہلی کوشش پاکستان نے کی اور اب دنیا ایک حوصلے کیساتھ اس عمل میں شریک ہو رہی ہے۔ یہ پاکستان کا کریڈٹ ہے کہ جب مسلمان دنیا میں تسلیم اسرائیل کی ہوائیں زوروں پر تھیں اور اس عمل میں فلسطینیوں کا وجود ان کے دکھ، مصائب، مستقبل سب کچھ فراموش کیا جارہا تھا عمران خان نے دوریاستی حل کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے ایک لکیر کھینچی، اب سعودی عرب اسی لکیر کو تازہ کر رہا ہے۔ پاکستان کی یہی صلاحیت اور طاقت چھیننے اور بے اثر بنانے کیلئے اسے سلوپوائزننگ کے ذریعے موجودہ حال کو پہنچایا گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی