ashraf 1

سیاسی بھیڑ میں گم بیچارے عوام

دارالحکومت اسلام آباد میں جیسے جیسے سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسی شدت سے سیاسی درجۂ حرارت بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے پلیٹ فارم سے اعلان کیا ہے کہ 13دسمبرکو لاہور میں جلسہ ہر صورت منعقد ہوگا۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے مطابق یہ جلسہ حکومت کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ 13دسمبر کو یا آر ہوگا یا پار۔ اسی مناسبت سے آٹھ دسمبر کو اسلام آباد میںہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں بڑے بڑے فیصلے متوقع تھے لیکن اجلاس کے بعد میڈیا سے مختصر بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے صرف اتنا بتایا کہ اجلاس میں طے پایا ہے کہ دسمبرکے آخر تک ممبران قومی وصوبائی اسمبلی اپنے استعفے متعلقہ پارٹیوں کے سربراہان کے پاس جمع کرائیں گے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق گوکہ ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کی جانب سے استعفوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھے استعفے کی حیثیت اس وقت تک کچھ بھی نہیں ہے جب تک یہ استعفے متعلقہ اسمبلی کے سپیکر کی میز تک نہ پہنچ جائیں۔ اس کے بعد اگلے ہی دن اسلام آباد میں پی ڈی ایم کی سٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ 13دسمبر کو لاہور میں جلسے کے بعد جنوری کے آخری ہفتے میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جائے گا۔ دوسری طرف حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ اپوزیشن چاہے کچھ بھی کرلے وہ کسی قسم کی دباؤ میں نہیں آئے گی۔ یہاں پر سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اگر حکومت دباؤ میں آنے والی نہیں تو پھر لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے جلسوں میں سیاسی کارکنوں کیخلاف ایف آئی آر کٹوانے، جلسوں کیلئے ساؤنڈ سسٹم مہیا کرنے والے ڈی جے بٹ کو گرفتار کرنے اور جلسہ گاہ میں پانی چھوڑنے کے حوالے سے حکومت اس ملک کے عوام کو بالعموم اور اپوزیشن جماعتوں کو بالخصوص کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں اپوزیشن کے پاس آپشنز کیا ہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن کی تحریک اس وقت پوری قوت کیساتھ حکومت کیخلاف سیاسی میدان میں اُتری ہے لیکن جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کے بعد بھی اگر حکومت نہیں گئی تو پھر اپوزیشن کہاں کھڑی ہوگی؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ جلسے جلوسوں سے حکومتیں ختم نہیں ہوا کرتیں۔ اگر ہوتی تو تحریک انصاف کے 122دن کے دھرنے سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم ہوجاتی۔ اپوزیشن کے پاس قومی اسمبلی میں وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا آپشن بھی موجود ہے لیکن وہ ماضی میں اس آپشن کو بھی سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی شکل میں ایک ناکام تجربے کے طور پر آزما چکی ہے۔ اسی لئے پی ڈی ایم کی پوری سیاسی قیادت سمجھتی ہے کہ ان کے پاس سب سے مؤثر ہتھیار اس وقت یہ ہے کہ وہ بیک وقت قومی وصوبائی اسمبلیوں سے استعفے دیکر حکومت کیلئے مشکلات پیدا کریں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ اسمبلیوں کو تحلیل کرکے ملک میں نئے سرے سے عام انتخابات کا اعلان کریں لیکن اس حوالے سے بھی پی ڈی ایم کی کئی ایک جماعتوں کے اندر اختلافات موجود ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) کی موجودہ مرکزی قیادت مریم نواز سمیت، پی ڈی ایم کی اکثر جماعتوں کی قیادت اس وقت اسمبلیوں سے باہر بیٹھی ہے اور ان کی پوری کوشش ہے کہ حکومت کیخلاف ایک فیصلہ کن تحریک چلاکر ملک میں عام انتخابات کیلئے فضا بنائے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن کے اس مؤقف کی تائید نہیں کررہی۔ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ کے اندر سے بھی استعفوں کیخلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے لاہور میں ایک پبلک ریلی سے خطاب کے دوران بتایا کہ جو ممبران اسمبلی استعفے نہیں دیں گے ان کے گھروں کا گھیراؤ کیا جائے گا۔ اسی دوران وزیراعظم عمران خان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر اپوزیشن ممبران اسمبلیوں سے استعفے دے دیتے ہیں تو وہ ان نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائیں گے۔ ایسی صورتحال میں اگر حکومت مستعفی ارکان اسمبلی کی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کراتے ہیں تو کیا مستعفی شدہ ارکان دوبارہ اپنی اپنی نشستوں پر انتخابات لڑیں گے یا اپنے سیاسی حریفوں کیلئے میدان کھلا چھوڑیں گے؟ یہاں پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی رشہ کشی کی اس گمبھیر صورتحال میں بے چارے عوام کہاں کھڑے ہیں۔ کیا اس وقت ملک اس قسم کے سیاسی عدم استحکام کا متحمل ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر دہرایا ہے کہ وہ سیاسی امور پر اپوزیشن کیساتھ قومی مکالمے کیلئے تیار ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی اکھاڑے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے اس ملک میں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کے مارے عوام کی خاطر سرجوڑ کر بیٹھنا چاہئے تاکہ ایک نئے عزم کیساتھ ملکی ترقی کا یہ سفر اکھٹے طے کر سکیں۔

مزید پڑھیں:  ایرانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی