p613 9

قوم شوگر مافیا کو کٹہرے میں دیکھنے کی منتظر ہے

شوگر فارنزک رپورٹ سے اس امر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ مل مالکان نے ملکر کسانوں کو لوٹا اور سبسڈی لی، شوگرمافیا میں سیاستدان جو حکومتی اور حزب اختلاف دونوں کی صفوں میں ہیں شامل ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ رپورٹ کے مطابق حکومتی ادارے جیسے ایف بی آر، سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ایس ای سی پی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میںناکام رہے۔ رپورٹ کے مطابق حکومت بھی پوری طرح بری الذمہ نہیں۔ شوگر تحقیقاتی رپورٹ میں کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی، شوگر ایڈوائزری بورڈ اور کابینہ کے فیصلوں پر بھی سوالات اُٹھائے گئے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب حکومت نے چینی ایکسپورٹ پر سبسڈی اس وقت دی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھ رہی تھیں، جب تک سبسڈی واپس لی گئی اس وقت تک سات لاکھ باسٹھ ہزار ٹن میں سے چارلاکھ چوہتر ہزار ٹن چینی ایکسپورٹ ہوچکی تھی۔ پنجاب حکومت نے تین ارب روپے کی سبسڈی بھی بلاجواز دی، تحقیقاتی رپورٹ میں وفاقی وزیر اسد عمر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ صوبوں کو سبسڈی دینے کے اختیار دینے پر مطمئن نہیں کر سکے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو تو کوئی اجلاس اور فیصلہ یاد تک نہیں، وہ سوالوں کے جواب کیا دیتے۔ شوگرملز مالکان نے منظم منصوبہ بندی کیساتھ گنے کی پیداوار کم دکھائی اور پیداوار کا قریب ایک چوتھائی حصہ مخفی رکھا گیا۔ شوگرملز مالکان نے کاشتکاروں کو چالیس روپے فی من کم ادائیگی کی، کمشنر اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر کا شتکاروں کی حق تلفی روکنے میں ناکام رہے۔ پیداواری لاگت کے معاملے میں بھی پوری طرح ہیرپھیر کی گئی، ٹیکس بچائے گئے اور جعلسازی سے چینی کی ایکسپورٹ زیادہ ظاہر کی گئی۔ فرانزک رپورٹ کی سفارشات میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ تحقیقات اور فرانزک آڈٹ دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے ایف آئی اے، ایس ای سی پی، اینٹی کرپشن ایف بی آر اور سٹیٹ بنک کے افسران پر مشتمل تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی جائیں جو ملک میں چینی کے تمام کارخانوں کا آڈٹ کریں اورنتائج کی روشنی میں قانونی کارروائی کریں۔ رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ نیب عوامی عہدوں پر فائز افراد اور ان کے قریبی عزیزوں اور دستوں کے چینی کے کارخانوں کے ان عوامل کی تفتیش کریں جو کہ نیب آرڈیننس کے تحت قابل سزا جرم ہے، اس کے علاوہ قومی خزانے میں سبسڈی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی بھی تحقیقات کی جائے۔ تحقیقاتی ٹیم کی فرانزک رپورٹ سے ایسا لگتا ہے کہ پہلی رپورٹ اور دوسری فرانزک رپورٹ کافی نہیں، اس معاملے کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اصولی طورپر رپورٹ کے یہ مندرجات درست ہیں لیکن حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی صفوں میں جن سیاستدانوں اور ان کے عزیزواقارب کی نشاندہی کی گئی ہے اور جن شوگرملوں کے دستاویزات کا معائنہ کر کے رپورٹ مرتب کی گئی ہے اصولی طور پر کارروائی کا آغاز انہی سے ہونا چاہئے۔ حکومت نے رپورٹ عام کرکے قابل تحسین کام کیا ہے لیکن فی الوقت یہ دو دھاری تلوار بھی نظر آتا ہے اگر حکومت کسی وجہ سے کارروائی میں تاخیر کرتی ہے اور مزید در مزید تحقیقات کیلئے معاملے کو طول دیتی ہے اور سامنے آنے والے ناموں کیخلاف کارروائی نہیں کرتی تو رپورٹ کا اجرا سستی شہرت اور حکومت کے دبائو میں آنے کا تاثر قائم ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعظم کے پاس خود ان کے اعلان کے مطابق اب کارروائی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، جہاں تک تحقیقات کا معاملہ ہے وہ مقدمات کا اندراج کرنے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہیں اور جن مزید شوگرملز کیخلاف تحقیقات ہونی ہیں وہ بھی جلد شروع ہونی چاہئے لیکن لگتا ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ اس کی لپیٹ میں خود اعلیٰ حکومتی عہدیدار بھی اپنے فیصلے کی وجہ سے آئے ہیں۔ یہ سوال بجاطور پر درست ہے کہ چینی درآمد کرنے کی اجازت کس نے دی؟ حکمرانوں نے غلط فیصلے کیوں کئے اور چینی کی ملکی ضرورت کو مدنظر رکھنے کی بجائے بلکہ ایک موقع پر سرکاری اہلکارنے اس کی نشاندہی بھی کی مگر اس کے باوجود ایکسپورٹ کی اجازت دیدی گئی۔معاملہ صرف اس حد تک کا ہی نہیں کہ شوگرملز مالکان نے کئی بلین روپے کی سبسڈی لی ٹیکس کی ادائیگی بھی منفی سبسڈی اور ری فنڈ لیکر اُلٹا چینی بھی غریب عوام کو مہنگے داموں فروخت کی گئی۔ افغانستان اور وسط ایشیاء کو چینی برآمد کرنے میں اکیاسی ہزار میٹرک ٹن کا فرق ہے، اس کی روک تھام یا ملی بھگت کی ذمہ داری کا بھی تعین ہونا ہے۔ بے نامی ترسیل رقم ذخیرہ اندوزی اور حساب کتاب میں ہیر پھیر جیسے معاملات کے شوگرملز مالکان اور شوگرملز کی انتظامیہ تن تنہا ذمہ دار نہیں، اس سارے عمل کی روک تھام میں ناکامی کی ذمہ داری بھی غلط فیصلے کی طرح حکومت ہی پر عائد ہوتی ہے۔ مختصراً چینی برآمد کرنے کی اجازت نہ دی جاتی تو اس ساری کہانی کا جنم ہی ممکن نہ تھا۔ عوام سے سو ارب روپے لوٹے جانے کے ذمہ داروں کا تعین ہی کافی نہیں لوٹی ہوئی رقم کی واپسی ہی اصل انصاف اور سزا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے چینی سکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ عام کر کے عوام کو خود اپنی حکومت کے فیصلوں میں کوتاہی تک سے آگاہ کر کے مثالی کام انجام دیا ہے، عوام کو چینی مہنگی دینے والوں کا تعین بھی بہت حد تک ہوگیا ہے اب اس ساریتپسیا کے حاصل کا انتظار ہے اور یہی وہ اصل اقدام ہوگا جس کے بعد ہی یہ ساری محنت رنگ لا پائے گی اور عوام کو اطمینان ہوگا کہ ان سے کیا گیا ایک مشکل وعدہ پورا ہوگیا ہے۔ عوام قانونی موشگافیوں کو نہیں سمجھتے وہ اس رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کے منتظر ہیں، کارروائی شروع ہو جائے اور معاملات عدالت میں پہنچ جائیں تبھی بھی شوگرسکینڈل کے کرداروں کو سزا تکنیکی بنیادوں پر شاید ممکن نہ ہو اس مرحلے پر ممکن ہے خود حکومتی فیصلوں کے حامل عہدیدار بھی کٹہرے میں کھڑے ہوں خواہ کچھ بھی ہو اب جبکہ یہ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے اسے دوبارہ تھیلی میں ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے اورنہ ہی کسی مصلحت کا شکار ہوا جائے، ایسا ہونے کی صورت میں ہی آئندہ گنے کے کسانوں کو ان کی محنت کا پھل مل سکے گا۔شوگر اور گندم مافیاز کا راستہ روکا جاسکے گا۔

مزید پڑھیں:  اسرائیل حماس جنگ کے 200دن