p613 18

امریکہ واقعات سے سبق سیکھنے کی ضرورت

امریکہ میں سیاہ فام شہری کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر امریکی ریاستوں کے بعد برطانیہ کا بھی لپیٹ میں آجانا امریکہ ویورپ میں نسلی تعصب کیخلاف برسوں سے پلنے والے لاوے کا اُبلنا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ کو بھی پرتشدد مظاہرین کے ہاتھوں وائٹ ہائوس کے مورچے میں پناہ لینی پڑی۔ صدر ٹرمپ نے بائیں بازو کی تنظیم اینٹیفا کو دہشتگرد قرار دے کر امریکا کو خود اپنے عوام کے ایک بڑے حصے کے جذبات کو دہشت گردی سے جوڑدیا ہے، وہ امریکا جو دنیا کے کونے کونے میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر متحرم تھی اب اسے خود اپنے ملک میں”دہشت گردی”کاسامنا ہے۔ عالم یہ کہ وائٹ ہائوس بھی گھیرے میں ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں سڑکوں پر بڑے بڑے ہجوم سے ان ممالک کا نسل پرست ملک ہونے کا تاثر واضح طور پر سامنے آچکا ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا اور حکومتوں نے نسل پر ستی اورتعصب کی جو آگ بھڑکائی تھی آج وہ خود اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ امریکہ میں صرف سیاہ فام طبقہ ہی تعصب کا شکار نہیں بلکہ جو بھی سفید فام نہیں وہ بھی تعصب کا شکار ہے، اگر یہ غیرسفید فام مسلمان ہوں تو پھر یہ کسی طور قابل معافی نہیں بلکہ ان پر آنکھیں بند کر کے دہشت گردی کا لیبل لگ جاتا ہے۔ نفرت کی جو آگ امریکیوں نے بھڑکائی تھی آج وہ خود اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کیساتھ جس قسم کا سلوک روا رکھا گیا وہ ایک دورتھا گزرگیا لیکن اس کی تلخیاں شاید ہی کبھی بھلائی جا سکیں۔ امریکا میں پولیس کے ہاتھوں ایک شخص کی ہلاکت پر جس قسم کے حالات سامنے آئے اس سے ہم پاکستانیوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے، پولیس کے ہاتھوں جس قسم کی بربریت کا مظاہرہ پاکستان میں ہورہا ہے آخر عوام اسے کب تک برداشت کرسکیں گے اور امریکیوں کی طرح یہاں کے عوام کا بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہونا دورازکار کی بات نظر نہیں آتی بلکہ سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی میں اس حوالے سے جو بحث چل رہی ہے بعید نہیں کہ یہ خطرناک رخ اختیار کر جائے جس کی روک تھام کا تقاضا یہ ہے کہ پولیس کی واضح زیادتیوں اور قتل کے جو واقعات رپورٹ ہوئے ان کے ذمہ داروں کو بچانے کی بجائے سخت سزادی جائے اور آئندہ پولیس کو ہر قیمت پر حدود میں رکھنے کی سعی کی جائے۔ پولیس اور عوام کے درمیان دوری اور خلیج کو مزید وسیع ہونے نہ دیا جائے تاکہ اچانک کوئی لاوا پھٹ پڑنے کا امکان باقی نہ رہے۔
آن لائن کلاسز
خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات آدھا تیتر آدھا بٹیر قسم کے انتظامات کے تحت کھل تو گئے ہیں لیکن طلبہ کو تعلیم دینے کا مقصد شاید ہی پورا ہو۔ بورڈ تہکال، کارخانو مارکیٹ کی آوازیں اگر آن لائن کلاسوں میں نہ بھی لگیں تب بھی ہماری جامعات کا آئی ٹی کا بندوبست ومیعار اور اساتذہ کی آئی ٹی میں مہارت اس معیار کا نہیں کہ وہ زندگی کا یہ پہلا تجربہ بہتر طور پر کر سکیں۔ بورڈ تہکال کارخانو کی آوازیں لگنا ازخود اس امر پر دال ہے کہ آن لائن کلاسوں کا ماحول سنجیدہ نہیں تھا اور اساتذہ کو دور بیٹھے طلبہ کو متوجہ کرنے اور پڑھائی کاماحول پیدا کرنے میں کامیابی نہ ہوسکی۔ ابھی ہمارے ہاں ذہنی بلوغت نہیں آئی کہ ہم آئی ٹی سے مثبت فوائد اُٹھا سکیں اور اس کی مضر ت رسانی سے بچیں۔ ان تمام معروضات کو ایک طرف رکھ کر اصل مسئلہ اور سوال ان طالب علموں کی پڑھائی کا ہے جن کو انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہیں۔ آن لائن کلاسوں کا معیار جو بھی ہو اور اس میں طالب علموں کی دلچسپی واجبی ہی سہی حاضری لگا کر کم ازکم وہ اپنے کریڈٹ آور تو مکمل کر لیں گے اور جیسے تیسے امتحان بھی ہوں گے، ان طالب علموں کا کیا ہوگا جن کو سرے سے یہ سہولت میسر ہی نہیں۔ رئیس الجامعات اور ایچ ای سی کو جلد سے جلد پالیسی اور طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ کوئی طالب علم محض انٹر نیٹ کی سہولت سے محرومی کے سبب مسابقت میں شامل نہ ہوسکے اورتعلیم سے محروم رہ جائے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ جامعات میں آن لائن کلاسز کا انعقاد کر کے رسم پوری نہیں کی جائے گی بلکہ آن لائن کلاسز کو کلاس رومز لیکچر کا بہتر متبادل بنانے کی سعی کی جائے گی اور اس طرح کے انتظامات کئے جائیں گے کہ کوئی بھی طالب علم محروم نہ رہے ۔
چراکارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
خیبرپختونخوا پولیس کے دہشت گردی کا مقابلہ کر کے شہید ہونے اور فاتح جوانوں کو شیرو کے نام سے پکارنے کا جو نوٹیفکیشن خجالت اُٹھانے کے بعد منسوخ کر دیا گیا اس سے اب پختونخوا پولیس کے وردی پوشوں کو شیرو پکارنے سے روکا نہ جا سکے گا۔ سوشلستان میں جس طرح کی درگت بلاوجہ بننے کا رواج ہے وہاں خیبرپختونخوا پولیس کے عاقبت نااندیش افسران نے اپنے ہی ہاتھوں کے پی پولیس کو ایک ایسا نام دیدیا ہے جو کسی طور بھی مناسب نہ تھا۔ کراچی پولیس کو ایک مرتبہ کسی من چلے نے ٹلے کا نام دیا جو آج تک رائج ومستعمل ہے۔ بہرحال اطمینان کا باعث امر یہ ہے کہ شیرو کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا ہے جو غلطی کا احساس ہے، بہتر ہوتا کہ جوانوں سے معذرت بھی کی جاتی۔ خیبرپختونخواپولیس خامیوں اور خرابیوں سے مبرا نہیں لیکن صوبے کی پولیس کی خدمات اورقربانیاں ناقابل فراموش ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں کے پی پولیس کے جوانوں اور افسران نے جس قسم کی دلیری کا مظاہرہ کیا وہ بڑے دل گردے کی بات تھی، ان خدمات وقربانیوں کے پیش نظر توقع کی جانی چاہئے کہ شیرو کو پولیس کی چھیڑ نہیں بنائی جائے گی اور نوٹیفکیشن کے واپس لئے جانے کے بعد یہ باب اب بند ہوگا۔ جن پولیس افسران نے یہ تجویز دی تھی اور نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اگر وہ تھوڑی سی سوچ وبچار کی زحمت گوارا کرتے تو پولیس فورس یوں مذاق کا نشانہ نہ بنتی اور نہ ہی ایک دن نوٹیفکیشن جاری کر کے دوسرے دن واپس لینے کی نوبت آتی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار