3 96

یہ سارا جھوٹ ہے، ایسا نہیں کہا میں نے

دور کیوں جائیں، آخری الہامی کتاب قرآن مجید فرقان حمید کے اندر حضرت یوسف کا قصہ موجود ہے اور ظاہر ہے قرآن جیسی عظیم کتاب سے زیادہ بڑی گواہی اور کس کتاب کی ہوسکتی ہے، قصے میں مصر کے بادشاہ کے خواب کا ذکر ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ مصر کے بادشاہ نے ایک خواب دیکھا کہ 7کمزورگائیں، 7تندرست وتوانا گائیوں کو کھا جاتی ہیں، خواب کی تعبیر کیلئے تمام تگ ودو اور پورے مصر کے کاہنوں، خواب گروں، جوتشیوں اور پیش بینوں کی مساعی ناکامی سے دوچار ہوئی تو بادشاہ کے دربار میں کام کرنے والے کارندے کو قید کے دوران ایک بے گناہ ساتھی قیدی حضرت یوسف یاد آیا جس نے اس کو آزاد ہونے اور دربار شاہی سے منسلک ہونے کے حوالے سے اس کے خواب کی تعبیر بتائی تھی، اس نے بادشاہ کے سامنے حضرت یوسف کی خواب بینی کا تذکرہ کیا تو بادشاہ نے یوسف کو بلوا کر خواب کی تعبیر دریافت کی، قصہ مختصر یوسف نے بادشاہ مصر کو بتایا کہ اگلے سات سال اس کے ملک میں وافر مقدار میں ہر قسم کا غلہ پیدا ہوگا اور اس کے بعد سات سال تک ملک میں قحط پڑے گا۔ اگر اس غلے کو درست حکمت عملی کے تحت محفوظ بنا کر رکھا جائے تو قحط کے دوران تقسیم کر کے لوگوں کو خوراک کی کمی آنے پر قابو پایا جا سکے گا۔ یوں قحط سے مصر اور گرد وپیش کی آبادیوں کو بچانے میں حضرت یوسف کی حکمت عملی اور حسن کارکردگی انسانی تاریخ نے ایک اہم واقعے کے طور پر محفوظ کر کے آنے والے وقتوں کیلئے ناقابل عمل بنا لیا۔ بقول شعیب بن عزیز
اب آنکھ لگے یا نہ لگے اپنی بلا سے
اک خواب ضروری تھا سو وہ دیکھ لیا ہے
عالمی ادارہ خوراک نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وبا غریب ممالک کو زیادہ نقصان پہنچائے گی، اس وقت دنیا کورونا وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے، غریب ممالک میں معاشی صورتحال کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے اور ہر شخص تک خوراک کی رسائی کا معاملہ خراب ہو رہا ہے، اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ غریب ممالک میں نہ صرف معیشت کو خطرات لاحق ہیں بلکہ خوراک کا عدم تحفظ بھی بڑھ رہا ہے۔ موجودہ وبائی صورتحال کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت کو جس قسم کے خطرات کا سامنا ہے اس حوالے سے عالمی سطح پر خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں جبکہ ترقی پذیر اور غریب ممالک کا جو حال ہونے والا ہے اس بارے میں پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی بھی ماہرین اقتصادیات کے زیرنظر ہے اور مختلف اقتصادی اور معیشتی جائزوں میں جو تصویرکشی کی جارہی ہے وہ قابل توجہ ہے، مگر اس کیساتھ ملک کے اندرآنے والے دنوں اور مہینوں میں قحط سالی کی جو صورتحال جنم لے رہی ہے اس کے بارے میں ماہرین زیادہ مشوش دکھائی نہیں دیتے یا اس سلسلے میں کسی تبصرے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، ایک جانب بارشوں کی وجہ سے فصلوں کو نقصان کی اطلاعات ہیں تو دوسری جانب ملک کے اکثر علاقوں میں حالیہ ہفتوں کے دوران ٹڈی دل نے جو یلغار کر رکھی ہے اس نے فصلیں مکمل تباہی سے دوچار کر دی ہیں، ملک بھر سے اس تباہی اور بربادی کی رپورٹیں ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر دیکھی جاسکتی ہیں، اگرچہ متعلقہ سرکاری ادارے حتی المقدور ٹڈیوں کو مارنے کی حکمت عملی اختیار کئے ہوئے ہیں اور سپرے کر کے انہیں مار کر بچی کچھی فصلوں کو محفوظ بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں تاہم ایک وبا کیساتھ ساتھ ٹڈیوں کی یلغار کو بھی اللہ کا عذاب ہی سمجھا جا سکتا ہے جس سے محفوظ رہنے کیلئے اللہ کے حضور صدق دل سے جھک کر اپنے اعمال کی معافی بھی ضروری ہے، ساتھ ہی حکومت کو آنے والے دنوں میں باقی بچ جانے والی فصلوں کو اگلے دنوں کیلئے محفوظ بنانے کی ایسی حکمت عملی بنانے پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ جس طرح حضرت یوسف کے قصے میں ان کے مشورے پر عمل کرنے سے قحط سے محفوظ بنانے کی درست حکمت عملی اختیار کی گئی، اسی طرح اس قصے میں پوری عالم انسانیت کیلئے سبق پوشیدہ ہے، یعنی اگر ہم نے آج ہی نہ صرف ٹڈی دل سے نمٹنے کیلئے ضروری اقدامات کئے بلکہ فصلوں کو محفوظ بنانے کی تگ ودو کرلی تو اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ وہ ہم پر ضرور رحم فرمائیں گے اور ہمیں کسی بھی ممکنہ قحط سے بچانے میں مدد فرمائیں گے۔ تاہم ملک کے اندر سیاسی محاذ آرائی نے جس صورتحال کو جنم دیا ہے اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ حکمرانوں نے آنے والے مہ وسال میں(اللہ نہ کرے) کسی بھی ممکنہ قحط سالی کے حوالے سے کچھ سوچا ہو یا پھر کسی حکمت عملی کے بارے میں سوچا ہو۔اس صورتحال پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہمارے سیاسی اکابرین اپنے اردگرد کے حالات سے جس طرح بے خبر رہ کر صورتحال سے نمٹنے کی بجائے ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہیں اور ایک دوسرے پر تابڑتوڑ حملے کر کے آنے والے خطرات سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں، انہیں غریب عوام کے مسائل کی کوئی فکر ہے نہ آنے والے دنوں میں پیش آنے والے خطرات سے آگہی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ حالات کی سنگینی سے جان چھڑانے کی حکمت عملی اختیار کرنے میں ہی انہیں اپنی سیاسی فتح نظر آتی ہے، ممکنہ قحط سالی اور معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے جس طرزفکر کی ضرورت ہے یہ پوٹاپر طبقات اس سے کوسوں دور ہیں اور ان کی سوچ کے دھارے صرف سیاسی منفعت کے منصوبوں میں اُلجھے ہوئے ہیں حالانکہ عالمی ادارہ خوراک نے جس خطرناک صورتحال کے حوالے سے پوری دنیا کو خبردار کرنے کیلئے آگہی مہم چلائی ہے اس کے تقاضے وہ نہیں جو ہماری سیاسی ماحول پر حاوی ہیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آنے والے خطرات سے نمٹنے کی تیاری کریں
حضور، محترم، عزت مآب، عالی جناب
یہ سارا جھوٹ ہے، ایسا نہیں کہا میں نے

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام