5 112

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

کچھ معاملات پر پُراسرار خاموشی، چند پر کھوکھلے دعوے اور دو تین معاملات ایسے ہیں جو نجانے کیوں یہ سمجھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ”لڑجھگڑ، دھکے دے کر جس گلی میں ہر شخص دوسرے سے پہلے داخل ہونے پر بضد ہے وہ گلی دوسری طرف کہیں نہیں کھلتی” آخر ہم بندگلی میں داخلے پر بضد کیوں ہیں؟ کوئی خوف ہے، ہانکا ہو رہا ہے یا فقط ”اپنی جان بچاؤ” کی سوچ؟ چند باتیں بہت واضح ہیں مگر ان واضح باتوں کو ترتیب کیساتھ لکھنے اور ان کا آپس میں رشتہ جوڑنے بارے کچھ ”محبین” مانع ہیں۔ دریا میں رہ کر مگرمچھوں سے بیر کس کو راس آتا ہے، جان ہے تو جہان ہے، ان دونوں باتوں کے باجود بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ”محبین” کی خواہش نما حکم کے برعکس یہ عرض کئے بنا نہیں رہا جا سکتا ہے ”کچھ بھی نارمل نہیں ہے” سنتھیا ڈی رچی، سندھ کی تازہ صورتحال (حالیہ دو تین واقعات) اور ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے سابق رکن محمد انور کے ”انکشافات”۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان تینوں کے درمیان تعلق ”خاطر” تلاش کرنے کو جی کرتا ہے۔ بعض اشارے ہیں، اخبار نویس کی تحقیق اور کہانی کو آگے بڑھانے کیلئے چند یا ایک آدھ اشارہ ہی تو ہوتا ہے۔ اگلا سفر اپنی ہمت اور لگن سے طے ہوتا ہے حرف جوڑنے تال میل میں ڈھونڈ نکالنے اور کہانی بُننے میں گو وقت تو لگتا ہے لیکن بے پرکی اُڑانے سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ دلائل وشواہد کیساتھ کہانی پڑھنے والوں تک پہنچائی جائے۔ سیاست وریاست کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا، سیاست برائے اقتدار ہوتی ہے۔ اب یہ سیاست کرنے والوں پر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار نام ونمود کیلئے حاصل کریں یا خدمت خلق کا ذریعہ بنالیں۔ ریاست بہرصورت اپنی بالادستی کی خواہاں ہوتی بلکہ رہتی ہے اور اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
ریاستوں اور سیاسی عمل کے حوالے سے دستیاب تواریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھ لیجئے کیسے کیسے داؤپیچ کھیلے جاتے ہیں۔ ان کے بارے آگاہی ”چودہ میں سے سترہ طبق” روشن کر دیتی ہے۔ خیر چھوڑئیے، یہ جملہ معترضہ ہے نظرانداز کر دیجئے۔ ہمارا یہ موضوع ہرگز نہیں، جب آپ لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانا چاہتے ہوں اور پوری منصوبہ بندی کیساتھ ڈرامے سٹیج کریں تو یہی کچھ ہوتا ہے جو ہمارے ہاں ہو رہا ہے، اپنے کج چھپانے کیلئے دوسروں کے کج ثابت کرنا پڑتے ہیں۔
غریبوں اور سفید پوشوں کے حالات سے جس حکومت کی آنکھیں بھر آتی ہیں اس نے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھائیں نا نجی شعبہ میں تنخواہ کی مقررہ حد میں اضافہ کیا، مختلف محکموں میں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے کیا ”معاملات” ہوئے ان کے بارے میں قبل ازیں عرض کر چکا مکرر عرض کرنے کا فائدہ؟ یہ جو اصل موضوع پر بات کرتے ہوئے بھٹک کر ادھر اُدھر چلا جاتا ہوں اس کی وجہ موسم کی سختی ہے۔ ”یقین” کیجئے؟ صرف موسم کی سختی باقی سب اچھا ہے۔ وسوسے کیوں ہیں، کہانی مکمل کرنے کیلئے کھوج اور کھوج کیلئے محنت سے جی کیوں چُرا رہا ہوں اس پر توجہ نہ دیجئے۔ چلیں ہم بھارت چین کشیدگی میں اپنے ہمالیہ جیسے سربلند دوست چین کی کامیابی پر جی بہلاتے ہیں، موجودہ حالات میں یہی مناسب ہے۔ سچ پوچھیں تو میں بند گلی میں پناہ لینے کا خواہش مند نہیں، اس سے پہلا سچ یہ ہے کہ میں اپنی لائبریری سے ہی باہر نہیں نکلتا۔ کتابیں پڑھتا ہوں، دوستوں سے رابطہ رکھتا ہوں، کبھی کوئی دوست ملنے آجائے تو جی بہل جاتا ہے۔ وباء کے اس موسم میں ہمدم دیرینہ کا ملنے چلے آنا نعمت سے کم نہیں۔ بینائی سے محروم حافظ جی سے والدہ نے پوچھا تھا، حافظ بیٹا حلوہ کھاؤگے؟ اُس نے کہا میری اماں اور اللہ نے مجھے پیدا کس لئے کیا ہے۔ چند ”محبین” ہیں جو گاہے گاہے داد اور ڈانٹ ڈپٹ دونوں کام کر لیتے ہیں۔ مجھے یہ محبین اچھے لگتے ہیں، کم ازکم منافق تو نہیں۔ اچھا خیر ہم کالم کی ابتدائی سطور یا یوں کہہ لیجئے اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ معاملات جس سمت بڑھتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں خدا کرے اس سمت مزید نہ بڑھنے پائیں، تحفظات کے باوجود دیگر رائے دہندگان کی طرح جمہوریت کے حق میں ہوں، وہ لولی لنگڑی، سمجھوتوں سے عبارت یاکنٹرولڈ جمہوریت ہی کیوں نا ہو۔ ہمارے مہربان اساتذہ فرمایا کرتے تھے جمہوریت جیسی بھی ہو اسی میں سے عوامی جمہوریت کا راستہ نکلے گا۔ اچھا ایک بات ہم سب ملکر سوچتے ہیں کیا معاشی بدحالی، وبا اور بداعتمادی کے پھیلاؤ کے اس بھرے پرے ماحول میں کسی بھی طرح کا ایڈونچر ”راس” آئے گا؟ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ جی نہیں، زندگی اور معاملات کو اپنے حال میں آگے بڑھنے دیجئے اس میں ہم سب کا فائدہ ہے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ