p613 61

بجلی منصوبوں بارے خیبرپختونخوا سے معاندانہ رویہ

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے سلسلے میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے نیشنل الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے مجوزہ 27سا لہ Generation Capacity Expansion Plan 2020-47 Indicative آئی جی سی ای پی میں صوبے کے اپنے وسائل سے شروع کردہ پن بجلی کے منصوبوں کو نظراندازکرنے پر صوبے کے مؤقف کو کامیابی سے پیش کیا ہے۔ صوبے میں30ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے جن سے استفادہ کرکے نہ صرف ملک میں توانائی کے موجودہ بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ مستقبل کی ضروریات کو بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ صوبائی حکومت کی ٹیم نے درست نکتہ اُٹھایا کہ خیبر پختونخوا کے پن بجلی کے منصوبوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔ پیڈو نے آئی جی سی ای پی پر اعتراض اُٹھاتے ہوئے نیپرا کو رپورٹ کی جو پلان کو منظوری دینے کا مجاز ادارہ ہے۔ اس کے بعد نیپرا نے این ٹی ڈی سی کو ہدایت جاری کی کہ پلان کی نظرثانی شدہ اشاعت میں خیبر پختونخوا کے منصوبوں کو شامل کیا جائے۔ اس سلسلے میں پیڈو نے جلد ہی اجلاس منعقد کرکے صوبے میں توانائی کے جاری اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں تفصیلات فراہم کیں، تاہم اپریل2020 کو ایک بار پھر خیبر پختونخوا کے توانائی منصوبوں کے بارے میں دی گئی معلومات کو نظرانداز کیا گیا، جس سے اس امر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ متعلقہ اداروں کا رویہ مناسب نہ تھا اور نہ ہی وہ خیبر پختونخوا کے منصوبوں میں معاونت کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ خیبر پختونخوا کے تمام پن بجلی کے منصوبے خواہ وہ حکومتی شعبہ یا نجی شعبہ میں چلائے جارہے ہیں کو مجوزہ پلان میں شامل کیا جاتا، خیبر پختونخوا میں آبی بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے حوالے سے وفاقی اداروں کی طرف سے مختلف انداز میں لیت ولعل کا جو مظاہرہ ایک عرصے سے جاری ہے اس کے باعث صوبے میں بجلی کے پیداواری منصوبوں میں تاخیر ہورہی ہے جو منصوبے صوبائی حکومت مکمل کر لیتی ہے اس کی بجلی کی خریداری میں اس کے باوجود روڑے اٹکائے جاتے ہیں کہ سستی آبی بجلی ملک کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والی بجلی کی پیداوار کو صنعتی علاقوں کو دینے اور مقامی بجلی کی پیداوار سے مقامی طور پر فائدہ اُٹھانے کے حوالے سے صوبائی حکومت کو درپیش مشکلات بصورت ٹرانسمیشن لائنز گرڈ سٹیشنز اور دیگر تنصیبات اور بنیادی اساس کے مسائل بلاشبہ پیچیدہ اور مشکل امور ہیں۔ اس ضمن میں واپڈا، پیسکو اور پیڈو کے حکام کی آراء میں اختلاف کی گنجائش ہے لیکن صوبائی حکومت کے تیار کردہ منصوبوں کی مرکزی سطح پر حوصلہ افزائی کی بجائے ان کو اُلجھانے کی پالیسی ملک میں بجلی کی پیداوار کی ضرورت سے انکار کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور صوبے کی ٹیم کے مؤقف کو سمجھنے اور ان کو مطمئن کرنا محولہ اداروں کی ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کی صورت میں وفاقی حکومت کو نوٹس لینا چاہئے۔ جہاں تک خیبر پختونخوا میں سرکاری ونجی شراکت اور نجی طور پر آبی بجلی کے منصوبوں کا تعلق ہے صوبے میں اس کے بے شمار مواقع ہیں جن سے استفادے کی اگر مرکزی سطح پر وسائل کی فراہمی سرمایہ کاری اور ادارہ جاتی طور پر آسانیاں پیدا کر کے حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی تو کم ازکم قانون کے مطابق ان منصوبوں کو شروع کرنے کی راہ میں رکاوٹ تو نہ ڈالی جائے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں