2 232

میرے بچو کب تک باپ کے کندھے پر بیٹھوگے

تہہ بازاری کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں بلدیات والے اس بازار کے متعلق جو دکانداروں کی ایماء پر دکانوں کے سامنے سج جاتا ہے، جس میں ہتھ ریڑھیوں والے اپنے ٹھیلے یا ریڑھیاں کھڑی کردیتے ہیں۔ خوانچہ فروش یا زمین پر چٹائی بچھا کر بے در ودیوار دکانیں سجانے والے اشیائے صرف بیچنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس طرح روزی روٹی پیدا کرنے والوں کو نہ دکان کا کرایہ دینا پڑتا ہے نہ بجلی یا اس نوعیت کا کوئی یوٹیلیٹی بل ادا کرنا ہوتا ہے۔ دکانوں کے سامنے لگنے والی دکانوں پر مبنی بازار کی اس تہہ کے دکانداروں کو اپنی ہتھ ریڑھی کھڑی کرنے یا سٹال لگانے کی غرض سے اس دکاندار کو راضی کرنا ہوتا ہے جس کی دکان کے عین سامنے وہ اپنی بے در ودیوار دکان بنا لیتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی دکانداری کو کسی کی روک ٹوک سے بچانے کیلئے یا بزعم خود قانونی تحفظ دینے کی غرض سے اپنے ووٹ کی قوت کو استعمال کرکے کسی بااثر سیاسی ورکر یا سیاسی اکھاڑے میں اُترنے کی آرزو رکھنے والے کے سہارے بلدیہ والوں سے ریڑھی پر دکانداری کرنے یا فٹ پاتھ پر خوانچہ فروشی کرنے یا سٹال لگانے کیلئے اجازت نامہ یا پاس حاصل کرلیتے ہیں اور یوں اس دکاندار کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رہتا، جس کی دکان کے سامنے اس نے اپنا ڈیش جمایا ہوتا ہے۔ اگر ان کے پاس ہتھ ریڑھی کھڑی کرنے کا کوئی اجازت نامہ یا پاس نہیں ہوتا تو وہ تر نوالہ بن جاتے ہیں، ان دکانداروں کیلئے بھی جن کی دکان کے سامنے وہ تھڑہ لگا کر روزی روٹی کمانے لگتے ہیں اور ان اہلکاروں یا بلدیاتی کارندوں کیلئے بھی جو ان کی تہہ بازاری پر اعتراض کرنے یا ان کا چالان کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ جانے کب سے چل رہا ہے گلشن کا یہ اندھا نظام۔ ہمارے علم میں ایسی ایسی تہہ بازاریاں بھی آئی ہیں جنہیں تہہ بازاری درتہہ بازاری کا نام دیا جاسکتا ہے۔ ایسے بازار سجانے والے اپنا بکاؤ مال دکانوں کے سامنے بنے فٹ پاتھوں کے علاوہ بیچ سڑک کے بھی سجا بیٹھتے ہیں۔ ان کی اس حرکت کو ناجائز تجاوزات کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے، جو قانون کے شکنجے میں جکڑے جانے کا سبب بنتی ہے۔ ایسا کرنے والوں کیخلاف بلدیاتی اداروں کے سکواڈ میدان عمل میں آتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے چھاپہ مارتے ہیں اور ناجائز تہہ بازاری کے مرتکب افراد کے کھوکھوں کو اکھاڑنے کے علاوہ ہتھ ریڑھیوں یا زمین پر لگے سٹالوں کا ساز وسامان اور اشیاء برائے فروخت مال غنیمت سمجھ کر مفت میں اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور یوں بھگتنی پڑتی ہے تہہ بازاریوں یا ناجائز تجاوزات کرنے والوں کو اپنے کئے کی سزا۔ چھاپہ یا ریڈ کہتے ہیں اس اچانک حملہ کو جو بلدیات والے چھاپہ مار ٹیم تشکیل دیکر آن دھمکتے ہیں، تہہ بازاری کے مرتکب عوامل اور خرچ کر دیتے ہیں اپنی تمام تر توانائیاں تہہ بازاری کے اونٹ کی کل سیدھی کرنے میں لیکن اس وقت ان کا یہ چھاپہ اپنا سا منہ لیکر ناکامیوں کا سامنا کرتا رہ جاتا ہے جب ان کے چھاپہ مارنے سے پہلے ہی تمام تہہ بازاریوں کو اس طوفان ناگہانی کے اُترنے کا علم ہوجاتا ہے۔ بھاگو بھاگو کمیٹی والے آگئے۔ بازار کے ایک کونے سے ہر کونے تک یہ بات پھیل کر ٹھہرے پانی میں پھینکے جانے والے پتھر کی طرح کی ہلچل مچا دیتی ہے اور تہہ بازاری دکاندار اپنے مال برائے فروخت کا بوریا بستر سمیٹ کر اس وقت تک بازار کے کونوں کھدروں میں جا چھپتے ہیں جب تک کمیٹی والوں یا بلدیاتی اداروں کی چھاپہ مار ٹیم اس بازار سے گزر نہیں جاتی۔ جیسے ہی کمیٹی کے اہلکاروں کا جیش یا ان کا سکواڈ اک بازاز سے نکل کر کسی دوسرے بازار کی موڑ مڑتا ہے۔ ایک بار پھر تہہ بازاروں کا چھپن چھوپ یا آنکھ مچولی کھیلنے والا ہجوم اپنے مال ومتاع کے ہمراہ کونوں کھدروں سے نکل کر فٹ پاتھوں اور گزرگاہوں پر قبضہ جمالیتے ہیں۔ زلزلہ یا بونچال آتا ہے ہم توبہ استغفار پڑھتے ہیں، ہم جان ومال کی خیر مناتے کلمے درود پڑھنے لگتے ہیں، جیسے آسمان سے اُترنے والے قہر کا خوف دم توڑتا ہے، ہم ایک بار پھر اپنے کرتوتوں کی رو میں بہنے لگتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، جیسے کچھ ہو ہی نہ سکتا ہو۔ بازاروں میں تہہ در تہہ بازار سجانے والے یا دکانیں بڑھانے والے چھاپہ مار ٹیم کے گزرجانے کے بعد ایک بار پھر اُجڑے گلشن کا کاروبار چلانے لگتے ہیں، وہ یہ سب اسلئے کرتے ہیں کہ جیسے تیسے روزی روٹی پیدا کرنا ان کی ضرورت ہے۔ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، آج کل ہفتہ اور اتوار کے دن لاک ڈاؤن کی پابندی کرتے ہوئے دکانداروں کو دکانیں بند کرنے کا حکم ہے، لیکن کاروبار کی بندش ان کیلئے سوہان روح ہے سو وہ اپنی بند دکانوں کے آگے تہہ بازاری کا کاروبار شروع کرکے موجد بن گئے ہیں اک نئی اختراع یا ایجاد کے اور یوں وہ کاروباری سرگرمیاں جاری رکھ کر کرونا سے ڈرنے کی بجائے اس کا منہ چڑانے لگے ہیں اور یوں تہہ بازاری کی گاڑی بچوں کیلئے روزی روٹی کمانے کی فکر میں لاک ڈاؤن کی پک ڈنڈیوں پر رواں دواں کہتی سنائی دے رہی ہے کہ
مرے بچو کب تک باپ کے کندھے پر بیٹھو گے
کسی دن فیل اس گاڑی کا انجن ہو بھی سکتا ہے

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات