1 212

اداروں پر ”گل پاشی” کا انوکھا انداز

قومی احتساب بیورو کے آگے میدان سجانے کی ابتدا پیپلزپارٹی نے کی، اب اس اسلوب کو مسلم لیگ ن نے آگے بڑھایا۔ مریم نواز شریف کو نیب نے اچانک طلب کیا تو وہ اپنی طویل خاموشی ختم کرنے پر مجبور ہوئیں۔ انہوں نے خود تسلیم کیا ان کی خاموشی نوازشریف کی صحت کی ضمانت تھی۔ نوازشریف جب عدالتی فیصلے کے تحت علاج کی غرض سے لندن چلے گئے تو حکومت کیلئے یہ قطعی اچانک تھا۔ حکومت نے سانپ نکل کر رسی پیٹنے کے مصداق نوازشریف کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد خود ہی ایک ہنگامہ برپا کئے رکھا۔ نتیجے کے طور پر حکومت نے مریم نواز کے پاکستان سے نکلنے کے راستے مسدود کرنا شروع کئے۔ مریم نواز خاموش ہوکر پاکستان میں رہنے لگیں، ان کا سوشل میڈیا حسب معمول آگ اُگلتا رہا مگر ان کا ٹویٹر خاموش ہوگیا۔ ان کی اس معنی خیز خاموشی کو ہیئت مقتدرہ کیساتھ خاموش مفاہمت کا نتیجہ قرار دیا جانے لگا۔ مسلم لیگ ن میں چچا بھتیجی کی ایک کشمکش کی باتیں بھی عام ہوتی رہیں۔ کشمکش تھی بھی یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ ن میں ہر سیاسی جماعت کی طرح سوچ کے دودھارے موجود رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ دونوں دھارے جاتی امراء سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوتے ہیں۔ ماضی میں بھی اختلافات کی کہانی کے گرد گھوم کر ختم ہوتے رہے ہیں۔ اب بھی شہباز شریف اور مریم نوازشریف کے اختلاف رائے کا یہی عنوان ہے۔ یہ اختلافات نہیں اختلاف رائے کہلا سکتا ہے۔ اختلاف رائے کا یہ گھریلو انداز ہی مسلم لیگ ن کے سیاسی اتحاد کا ضامن رہا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں اختلاف رائے کو اختلافات میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی چار وناچار جنرل مشرف کو نوازشریف اور شہباز شریف دونوں کو ملک سے باہر نکالنا پڑا۔ اب نیب نے مریم نواز کو طلب کرکے ان کی ایک سال سے زیادہ عرصے پر محیط خاموشی کو توڑ دیا۔ نیب نے انہیں کئی سو ایکڑ زمین کا حساب کتاب کرنے کیلئے طلب کیا تو مریم نوازشریف نے کارکنوں کے جلو میں نیب میں پیش ہونے کا راستہ اپنایا۔ کارکن جب اپنی قیادت کو مافوق الفطرت اور معصوم عن الخطاء سمجھنے لگیں تو پھر وہ اپنی قیادت کو سوال وجواب اور حساب وکتاب سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ بلاول نیب میں پیش ہوں یا مریم نواز تو پھر کارکنوں کے صبر کا پیمانہ اسی انداز سے چھلکتا ہے جس طرح لاہور میں دیکھا گیا۔ ذاتی سوال وجواب اور عدالتی معاملات بھگتنانے کا یہ انداز لازمی طور پر تشدد کا باعث بنتا رہے گا۔ لاہور میں سجنے والے میدان کے بارے میں حکومت اور ن لیگ کا اپنا اپنا مؤقف ہے۔ مریم نواز نے ہنگامہ آرائی کا الزام پولیس کی وردی میں ملبوس نامعلوم لوگوں پر عائد کیا۔ پنجاب حکومت کے ترجمانوں نے اس ہنگامہ آرائی کا الزام ن لیگ کے سنگ باز کارکنوں پر عائد کیا۔ کئی ٹی وی چینلز نے گاڑیوں میں لائے جانے والے پتھر بھرے تھیلے دکھا کر اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچانے میں مدد دی تھی۔ جس لیگی ایم این اے کی گاڑی میں پتھروں سے بھر ے تھیلے دکھائے گئے اس نے الزام کی تردید یا تائید کرنے کی بجائے دلچسپ انداز میں فقط یہ کہا ہم پتھروں والے نہیں پھولوں والے ہیں اور ان تھیلوں میں پھول تھے۔ اداروں اور تنظیموں پر ”گل پاشی” کا یہ منفرد انداز بہت پرانا ہے۔ نوے کی دہائی میں ن لیگ نے سپریم کورٹ پر اس سے بھی زیادہ مہارت سے گل پاشی کی تھی۔ سپریم کورٹ حملہ کیس کی کارروائی بھی عدالت میں چلی تھی۔ اس دوران مرحوم طارق عزیز نے جو مسلم لیگ ن کے ایم این اے تھے اور ان کی ایک تصویر چیف جسٹس کے نام کی تختی اکھاڑتے ہوئے ریکارڈ پر آئی تھی۔ طارق عزیز نے عدالت میں یہ دلچسپ موقف اختیار کیا تھا کہ وہ یہ تختی اکھاڑ نہیں بلکہ زمین سے اُٹھا کرآویزاںکر رہے تھے۔ موجود ایم این اے اور نوے کی دہائی کے ایم این اے کی تاویلات میں ایک ہی مائنڈسیٹ جھلکتا ہے۔ مریم نواز نے اس واقعے کے بعد چپ کا روزہ توڑ پر حکومت پر جم کر تنقید کی۔ انہوں نے حکومت پر ہر طرح کا الزام عائد کیا حتیٰ کہ حکومت کی کشمیر پالیسی پر تنقید بھی کی۔ اس واقعے کے بعد سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ متوقع ہے۔ سیاسی درجہ حرارت میں اگست ستمبر میں پہلے ہی اضافہ متوقع تھا مگر مولانا فضل الرحمان کی آل پارٹیز کانفرنس کا کھٹائی میں پڑنا اپوزیشن کی صفوں میں نااتفاقی کا پیغام دیا گیا۔ اپوزیشن کی صفوں میں ابھی بھی اتحاد کا امکان نہیں کیونکہ ن لیگ کے کئی سرکردہ راہنما حکومت کو مدت پوری کرنے کا اشارہ دے چکے ہیں مگر درجہ حرارت میں اضافہ نیب کی کارروائیوں کا فطری ردعمل ہے۔ جوں جوں نیب اپوزیشن کے گرد گھیرا تنگ کرتا چلا جائے گا اپوزیشن آمادۂ فساد اور مشتعل ہوتی جائے گی۔ اس سارے منظرنامے کی ایک خاص بات یہ کہ مولانا فضل الرحمان تیزی پکڑتے ہیں تو اپوزیشن کی گاڑی کے باقی پرزے ڈھیلے پڑتے ہیں۔ بلاول زور پکڑتے ہیں تو بھی یہی ہوتا ہے۔ اب مسلم لیگ ن نے سپیڈ تیز کی ہے تو مولانا فضل الرحمان ناراض ہو کر بیٹھ گئے ہیں، لامحالہ بلاول کے جیالے انکلز نے انہیں ن لیگ کی سیاست کا ایندھن بننے سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہوگا۔ اس چھپن چھپائی پر اپوزیشن جماعتوں کا حال شکیل بدایونی کے اس شعر سے چنداں مختلف نہیں
وہی کارواں وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا