2 126

مشرقیات

حضرت جبیر بن نفیر فرماتے ہیں جب قُبرص جزیرہ فتح ہوا تو وہاں کے رہنے والے سارے غلام بنالئے گئے اور انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا گیا وہ ایک دوسرے کی جدائی پر رو رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ حضرت ابو الدردا اکیلے بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا اے ابو الدردا آج تو اللہ نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت عطا فرمائی ہے تو آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ فرمایا اے جبیر ! تیرا بھلا ہو اس مخلوق نے جب اللہ کے حکم کو چھوڑ دیا تو یہ اللہ کے ہاں کتنی بے قیمت ہو گئی۔ پہلے تو یہ زبردست اور غالب قوم تھی اور انہیں بادشاہت حاصل تھی لیکن انہوں نے اللہ کا حکم چھوڑ دیا تو اب ان کا وہ برا حال ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو ۔ ابن جریر کی روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ اب تو ان کا وہ برا حال ہو گیا جو تم دیکھ رہے ہو کہ ان پر اللہ نے غلامی مسلط کردی اور جب کسی قوم پر اللہ غلامی مسلط کردیں تو سمجھ لو کہ اللہ کوان کی کوئی ضرورت نہیں (کیونکہ ان کی اللہ کے ہاں کوئی قیمت نہیں رہی )۔
حضرت ابو عبدہ العنبری کہتے ہیں جب مسلمان مدائن فتح کر کے اس میں داخل ہوئے اور مال غنیمت جمع کرنے لگے تو ایک آدمی اپنے ساتھ ایک ڈبہ لایا اورلا کر مال غنیمت جمع کرنے والے ذمہ دار کو دے دیا۔ اس ذمہ دار کے ساتھیوں نے کہا اس ڈبہ جیسا قیمتی سامان تو ہم نے کبھی دیکھا نہیں (کیونکہ اس میں بادشاہ نے سب سے زیادہ قیمتی ہیرے جواہرات رکھے ہوئے تھے ) اور ہمارے پاس جتنا مال غنیمت آچکا ہے اس سب کی قیمت اس کے برابر کیا اس کے قریب بھی نہیں ہو سکتی۔ پھر ان لوگوں نے لانے والے سے پوچھا کیا آپ نے اس میں سے کچھ لیا ہے ؟ اس نے کہا غور سے سنو اللہ کی قسم ! اگر اللہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں اسے آپ لوگوں کے پاس کبھی نہ لاتا۔ اس جواب سے وہ لوگ سمجھ گئے کہ یہ آدمی بڑی شان والا ہے انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں ؟ فرمایا نہیں اللہ کی قسم ! نہیں اپنے بارے میں میں نہ تو آپ لوگوں کو بتائوں گا کیونکہ آپ لوگ میری تعریف کرنے لگ جائیں گے اور نہ کسی اور کو بتائو ں گا کیونکہ پھر لوگ میری سچی جھوٹی تعریف کرنے لگ جائیں گے بلکہ میں تو اللہ کی تعریف بیان کرتا ہوں اور اس کے ثواب پر میں راضی ہوں (پھر وہ آدمی چلا گیا ) تو ان لوگوں نے ایک آدمی اس کے پیچھے بھیجا وہ آدمی (اس کے پیچھے چلتے چلتے ) اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا پھر اس نے اس کے ساتھیوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو وہ حضرت عامر بن عبد قیس نکلے ۔
حضرت قیس عجلی کہتے ہیں جب حضرت عمر کے پاس کسریٰ کی تلوار کمر کی پیٹی اور زیب و زینت کاسامان لایا گیا تو حضر ت عمر نے فرمایا جن لوگوں نے یہ سارا مال غنیمت یہاں پہنچا دیا ہے وہ واقعی بڑے امانتدار ہیں اس پر حضرت علی نے فرما یا چونکہ آپ خود پاک دامن ہیں اس لئے رعایا بھی پاکدامن ہوگئی ۔
(حیاة الصحابہ حصہ سوم)

مزید پڑھیں:  وسیع تر مفاہمت کاوقت